★ بابو بھائی مصنف اور مظلوم بھکاری چیئرمین ★
پڑھئے شہزاد بشیر طنز و مزاح کالم نمبر #17
بھکاری ایسوسی ایشن کے چیئر مین کا بابو بھائی کو فون: ایک دلچسپ فرمائش ! مصنف کا دلچسپ جواب۔ آخری پیراگراف آپ کے لئے ہے۔
بابو بھائی اور رمضان کا بھکاری (حصہ اول)
ٹرن ٹرن۔۔۔۔ ٹرن ٹرن ۔۔۔
کافی دیر سے فون بج رہا تھا اور چھٹی کے دن بابو بھائی کی نیند کا بیڑہ غرق کر رہا تھا۔ فون دور تھا تو انہوں نے تکیہ اٹھا کر کانوں پر دھرلیا مگر یہ وہی تکیہ تھا جس کے پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ مطلب آواز پھر بھی بند نہ ہوئی تو بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ دیکھیں کو کمبخت ہے جو تین فون کالز کے بعد بھی رک نہیں رہا گھنٹی بجانے سے جو ان کے دماغ پر گھنٹے کی طرح لگ رہی ہے۔
اوئے آرہا ہوں۔ چھری کے نیچے دم تو لے ذرا۔” بڑبڑاتے ہوئے وہ میز کی طرف گئے۔”
تاروں کے گچھے میں سے اپنا کیبل اور موبائلوں کے ڈھیر سے اپنا فون پہچاننا بھی صبح صبح ایک قید بامشقت کی سزا لگتی ہے۔ گھر کے ہر فرد کا موبائل ایک ہی بورڈ سے چارج ہوتا ہے۔ لگتا ہے بجلی کے پول میں کنڈے ڈلے ہوئے ہیں۔” بابو بھائی جماہی لے کر بڑبڑائے۔
بڑی مشکل سے الٹ پلٹ کرکے اپنا فون پہچان کر نکالا۔ کمبخت ابھی بھی بجے جا رہا تھا۔ مجال ہے جو ایک منٹ چپ ہوا ہو۔
ہالو۔۔۔ کون صاحب؟” بابو بھائی نے جماہی لیتے ہوئے پوچھا۔”
“او پائی۔۔۔ تسی کون ہو؟” آگے سے سوال آیا۔”
ہاں جی۔ یہی سوال میں نے اردو میں پوچھا ہے۔” بابو بھائی نے فون کندھے پر لگا کر ٹھوڑی سے دباتے ہوئے ایک طویل انگڑائی لی۔”
( اوئے خبردار جو کچھ ایسا ویسا منظر سوچا۔ یہ مردانہ انگڑائی تھی )
“او پائی۔۔۔ میں پچھ رہیاں تسی کون ہو؟”پھر وہی سوال۔
ہاں جی۔۔۔ ایسے بھی لکھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں پنجابی میں۔ چلے گا یہ بھی۔” بابو بھائی نے اس کے جملے پر غور کرتے ہوئے کہا۔”
“او یار۔۔۔ میں پوچھ رہا ہوں کون ہو تم؟” اس بار کرخت لہجہ تھا۔”
او نہیں بی۔۔۔ بی فار بابو ۔۔۔ اور یار بے ایمانی تو مت کرو۔ یہ تو میرا سوال تھا۔” بابو بھائی نے طنز کیا۔”
“او میں چیئرمین بات کر رہا ہوں۔” بھنا کر کہا گیا۔”
اچھا جی! تو پھر میں بیڈمین بات کر رہا ہوں۔ آگے بولو۔” بابو بھائی کے دماغ کی بتی جل اٹھی۔ رگِ ظرافت پھڑکنے لگی۔
بھکاری ایسوسی ایشن کا چیئرمین ہوں میں۔” اب کے سخت لہجے میں کہا گیا۔”
ہیں جی۔۔۔ کیا فرمایا۔۔۔ بھکاری۔۔۔ہاہاہا۔ ایسوسی ۔۔ ایشن۔۔ہاہاہا۔” بابو بھائی ہنس پڑے۔”
“اوئے آہو۔۔۔ تسی جان دے نئیں؟ اج کل بھکاری پروفیشن کنہاں طاقتور اے۔” آگے سے ایسے جواب آیا جیسے حکومت کا سربراہ ملک کے ادارے کی تعریف کر رہا ہو۔ بابو بھائی چونک پڑے۔
“اچھا جی۔۔۔ حیرت ہے۔ چلو فرماؤ ۔۔ کیا کام ہے۔ ایک منٹ! کہیں رونگ نمبر تو نہیں لگا دیا۔ میرا اس ایسوسی ایشن سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ کبھی تھا اور نہ ان شاء اللہ کبھی ہوگا۔ باقی میں نے کوئی حصول ملازمت کی درخواست بھی نہیں دے رکھی اور نہ میں نے کوئی ملازمت دلوانے کا ادارہ کھول رکھا ہے۔ اس حساب سے تو یہ رونگ نمبر ہی بنتا ہے۔ خدا حافظ۔ ” بابو بھائی نے کہتے ہوئے فون کے لال بٹن کی جانب انگوٹھا بڑھایا مگر فوراََ آواز آئی۔
“او نئیں۔۔۔ رونگ نہیں ریٹ نمبر اے۔۔۔ تسی ؔکالم آلے بابو بھائی” گل کر رہے ہو نا؟” اس بار بابو بھائی کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
“ہاں جی بات تو کالم نویس بابو بھائی ہی کر رہا ہوں۔ بتائیے پھر۔ “بابو بھائی نے تجسس سے پوچھا۔
“او پائی ۔۔۔ ساڈے تے ریم کرو کچھ۔” اب کے آگے سے کچھ ملتجیانہ لہجے میں کہا گیا۔
“ریم ۔۔۔؟ او بھائی میں نے ریم بڑھانے کا کام اب چھوڑ دیا ہے۔ کسی کمپیوٹر کی دکان پر جاؤ وہاں سے ریم خرید لو۔ ” بابو بھائی نے فوراََ مشورہ دیا۔
“او یار۔۔۔ریم ریم۔۔ سمجھے ۔ مطبل۔۔۔ ہے کہ وہ جو ٹریفک والے، سکوٹر رکشہ ٹیکسی اور چھوٹی گاڑیوں پر نئیں کرتے ناں پاویں ہتھ جوڑو، وہ والا ریم کرو۔” بھکاری چیئرمین نے گڑبڑا کر کہا۔
“اچھا رحم ۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں۔ میں غلط سمجھا۔ تو ۔۔ بتائیے کیا رحم کروں اور کس پر کروں؟ ویسے رحم کے حوالے سے آپ نے رونگ نمبر ہی گھمایا ہے کیونکہ رحم کے لئے تو صرف اللہ سے بات کرنی چاہئے مجھ ناچیز کی کیا اوقات ہے۔” انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ساتھ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اللہ معاف کرے۔
“او ۔۔ پائی۔ وہ والا ریم تسی کرسکدے او۔” اس نے اصرار کیا۔
“بتاؤ بھی یار۔ کیسا رحم۔۔۔؟” بابو بھائی نے اب جھلا کر پوچھا۔ اچھی خاصی نیند خراب کرکے پہیلیاں بجھوا رہا تھا۔
“پائی جان۔۔۔ ساڈے حال تے ریم کرو۔ ابھی ہمیں بحریہ ٹاؤن کے پلاٹ کی قسطیں، بنک سے لی ہوئی نویں نکور لینڈ کروزر کی قسطیں، امریکہ میں پڑھتے بچوں کی فیسیں بھرنی اور یہاں کچھ اداروں کے لوگوں کو بھتے دینے ہیں۔” اس نے رونے والی آواز میں اپنی مظلومیت کا رونا رویا تو بابو بھائی کا تو سن کر سر ہی گھوم گیا۔ مگر فلم ابھی باقی تھی میرے دوست۔ وہ پھر بول اٹھا۔
” تسی اسی بھکاریاں دے پچھے کیوں پڑے او ۔ پائی میربانی کرو ۔ او جڑے کالم لکھدے او مزاحیہ ۔۔۔ بھکاریاں دے خلاف۔۔۔ اور او جڑا تسی کریٹکر ۔۔او کی کیندے نیں ۔۔۔ کیرکٹر بابو بھائی لانچ کیتا اے ۔۔۔ اسے روکو ۔۔۔ کراچی آلے اگے ہی بہت سمجھدار تے باشعور نیں ۔۔۔ تے تسی ہور انہاں نو ساڈے خلاف کر رے او۔ تواڈی میربانی ۔۔۔” اس نے ابھی دکھ بھری داستان غم کیا سنائی بابو بھائی ذہن کے مین کنٹرول روم کا مین سوئچ ہی اڑا دیا۔ دماغ میں اندھیرا چھا گیا جیسے رات کو اچانک شہر کے کسی بھی علاقے میں چھا جاتا ہے۔
( ایسے میں ہر شخص کو کتے پتہ نہیں کیوں یاد آجاتے ہیں۔)
“کک۔ کک۔ کیا کہا۔۔۔ ” بابو بھائی نے بری طرح بوکھلا کر پوچھا۔
“کالم۔۔۔ کالم روک دو لکھنا بھائی ۔ تمہاری میربانی۔” وہ بھی گڑبڑا کر بولا۔
“نہیں ۔۔۔ اس سے پہلے کیا بولا؟” بابو بھائی نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا۔
“کیریکٹر ۔۔۔ بابو بھائی ۔۔۔ ” وہ کہنے لگا مگر انہوں نے بات کاٹی۔
“نہیں۔۔ اس سے بھی پہلے۔ ریوائنڈ کرو ٹیپ۔۔۔” انہوں نے پھر کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ وہ شاید حیران تھا۔
“تسی آپ اے ای دس دو پائی۔ ” اس نے جھنجھلا کر کہا۔
“تت تم نے کہا۔ بحریہ ٹٹ ۔۔ ٹاؤن میں۔ پپ ۔پلاٹ۔۔۔ لل ۔۔ لینڈ کروزر اور۔ امریکہ میں بچے ۔۔۔” بابو بھائی نے رک رک کر انتہائی حیرت سے کہا۔
“او اچھا۔ آہو جی۔ بس جی گریب آدمی آں ۔۔۔ پر اپنی اولاد واسطے اننا تے کر ہی سکنا۔ ” بھکاری چیئرمین نے بڑی عاجزی و انکساری سے کہا۔
“اوت تیری خیر۔۔۔ میرا صدقے جانے کا دل کرنے لگا ہے۔ مگر صدقے جانے میں ٹائم لگے گا اور نہ جانے خرچہ کتنا آئے۔ ویسے پہلے اسے گوگل میں سرچ بھی کرنا پڑتا کہ یہ ہے کہاں پر۔ تو صدقے جانے کا پروگرام کینسل۔” بابو بھائی نے بے چارگی سے کہا۔
“ہیں جی۔۔۔؟” بھکاری چیئر مین نے حیرت سے پوچھا۔
“اتنا سب کچھ ہے پھر بھی گریب آدمی؟” بابو بھائی کی آنکھیں 99۔99٪ کھل چکی تھیں۔ دماغ کی بتی بھی آگئی تھی۔ کیونکہ بل پورا بھرتے تھے تو زیادہ دیر لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تھی۔
“او پائی۔۔۔ تسی چھڈو سب۔ اے دسو ۔۔ توانو کی پیش کریئے لکھن توں روکنڑ واسطے ؟” بھکاری چیئر مین نے قدرے دھیمے بلکہ سرگوشیانہ انداز میں کہا۔
“چیئر مین صاحب ۔۔۔ دسو کی کرسکدے او تسی۔”بابو بھائی نے بھی سرگوشیانہ انداز میں پوچھا۔
“اے ہوئی نا گل۔۔۔ تو فیر تسی دسو کی چاندے او۔ پلاٹ، گاڑی، عمرے دا ٹکٹ یا بار کوئی بچہ وچہ پڑھانا۔ جو کہو گے اسی کر لاں گے۔” اس نے چہک کر کہا شاید اتنی جلدی میرے مان جانے کی امید نہیں تھی۔
“اوکے تو پھر ایک کام کرو میرے پیارے دوست۔۔۔ !” بابو بھائی نے لہجے کو ذرا میٹھا بناتے ہوئے کہا۔
“آہو ۔ جی آہو۔ دسو ۔۔” وہ خوش ہو کر بولا۔
★ “اپنی ایسوسی ایشن بند کرو اور فوری طور پر اپنا بوریا بستر ادھر سے گول کرو۔ تم جیسے پیشہ ور بھکاریوں کی اب شہر میں کوئی جگہ نہیں۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار اب ہر انسان کے ہاتھ میں ہے اور شعور بیدار ہو رہا ہے۔ اب کراچی اور دیگر شہروں میں بھکاری مافیا کا راج ختم۔ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مستحق افراد کی مدد کر رہے ہیں اور پورا رمضان بھی یہی کریں گے۔ میں اور کالم لکھوں گا۔ تم جیسے لوگوں نے جس طرح شہریوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے اسی طرح ہم لکھ لکھ کر تم جیسوں کا جینا اجیرن کریں گے۔ میں اکیلا نہیں اب ہر بندہ چاہے وہ ایک سطر لکھ سکتا ہو۔۔۔ اس بھکاری مافیا کے خلاف سرگرم ہے۔ لوگ جنرل اسٹور پر جا کر مستحق لوگوں کے قرضے اور ادھار ادا کر رہے ہیں، ہسپتالوں میں جاکر لاچار غریب مریضوں کے بل دے رہے ہیں، اسکولوں کے رجسٹر سے بچوں کے فیس کے بقایا جات اور کورس کی رقم ادا کر رہے ہیں، بے روز گاروں کو رکشہ ٹیکسی دلوا رہے ہیں اور ٹھیلے لگوا کے دے رہے ہیں۔ اب سب جان گئے ہیں کہ تم جیسے امیر کبیر بھکاری کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بھی ہمارے ہی پیسے سے بنتے ہو۔ اب دوبارہ فون مت کرنا ورنہ بابو بھائی آجائے گا۔ سمجھے۔۔۔۔ ” بابو بھائی نے سمجھے کو زوردار آواز کے ساتھ دہرایا اور فون بند کرکے ایسے پھینکا جیسے ان کے بھی بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ، لینڈ کروزر اور امریکہ میں بچے پڑھتے ہوں۔
ایک ٹھک کی آواز آئی اور ان کے موبائل کا انجر پنجر بکھر گیا۔ اب کبھی وہ خود کو اور کبھی ٹوٹے موبائل کو دیکھتے ہیں۔ ۔۔۔
( بعد میں انہیں بیگم نے اچھی طرح دیکھا اس کا ذکر نہین کیا جاسکتا۔)
مگر دوستو ! آپ ٹنشن نہ لینا۔۔۔ بابو بھائی موبائل دوسرا لے لیں گے ۔۔۔ چاہے اس کے لئے بابو بھائی کو کچھ دن ایکسٹرا راتیں جاگ کر کام کرنا پڑے یا سارا سارا دن محنت کرنی پڑے۔ مگر آپ یہ عہد کرلیں کہ جو اوپر کہا گیا اس کو جاری رکھیں گے۔ بھکاری مافیا کو بھگانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ شکریہ۔
—–
کالم : شہزاد بشیر
مصنف / پبلشر
مکتبہ کتاب دوست
مزید کالمز پڑھنے کیلئے وزٹ کیجئے : شہزاد بشیر ویب سائٹ
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |