Ishtiaq Ahmed اشتیاق احمد was Pakistan’s most popolar fiction writer who started writing in 1972 and wrote the best spy detective suspense thriller novels and Khas number for the kids.
اشتیاق احمد
کے مداحوں کیلئے بڑا سرپرائز
A big surprise for اشتیاق احمد Ishtiaq Ahmed fans
!ایک بار پھر کتاب دوست لے کر آئے ہیں کچھ نیا
جی ہاں! ہم ملوا رہے ہیں آپ کو اشتیاق احمد کے ایک جیتے جاگتےکردار سے۔ یہ کردار ابتدائی دور کے ناول میں متعارف کروائے گئے، پھر ایک اور ناول میں دوبارہ پیش کئے گئے اور پھر ایک خاص نمبر میں اس کردار کوبہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوتا بتایا گیا۔ پڑھئے اشتیاق احمد کے ایک کردار کا انٹرویو۔اشتیاق احمد کی کچھ ان سنی باتیں اور واقعات۔
اشتیاق احمد کے مداحوں کے لئے ایک خاص انٹرویو
An exlusive interview with اشتیاق احمد Ishtiaq Ahmed Character
ایک اتفاق کے نتیجے میں سوشل میڈیا کے توسط سے میری ملاقات ایک ایسے انسان سے ہوئی جو اشتیاق احمد مرحوم کے بے حد قریب رہے ہیں۔ اتنا قریب کے کچھ ناول اشتیاق احمد نے انکے آئیڈیاز پر لکھے جو کہ بے حد پسند کئے گئے۔ ان میں سے ایک ناول کا انتساب اشتیاق احمد نے ان صاحب کے نام لکھا تھا۔
!آپ یقیناََحیران ہورہے ہونگے
میں بات کر رہا ہوں جناب “سید علی وصی زیدی” صاحب کی جن سے میری اتفاقیہ جان پہچان کے بعد آن لائن تقریباََ پون گھنٹہ بات چیت ہوئی۔ پڑھئے کیا دلچسپ گفتگو ہوئی اور انہوں نے اپنے اور اشتیاق احمد کے بارے میں کیا انکشافات کئے۔
:ملئے اشتیاق احمد کے ایک جیتے جاگتے کردار شتو سے
اشتیاق احمد کے پڑھنے والے لاکھوں قارئین کی نظر
:حیرت انگیز اتفاق
یہ محض ایک اتفاق تھا کہ اشتیاق احمد سے متعلق ایک سوشل میڈیا گروپ میں جب ایک یوزر نے یہ لکھا کہ انسپکٹر جمشید کے بچپن کے بارے میں کسی بھی ناول میں تذکرہ نہیں کیا گیا تو میرے کان کھڑے ہوئے کیونکہ مجھے یاد ہے ایک ناول “چوتھا ٹکڑا” میں اشتیاق احمد نے انسپکٹر جمشید کے بچپن کا ذکر لکھا تھا۔ میں نے اپنی ویب سائٹ کتاب دوست ڈاٹ کوم سے ناول ڈاؤن لوڈ کرکے اس کو ایک بار اور پڑھا اورپھر اقتباس کی ایک تصویب بنا کر اس گروپ میں پوسٹ کر دی تاکہ یہ غلط فہمی دور ہوجائے۔
“تھوڑی ہی دیر بعد اس پوسٹ پر ایک کمنٹ آیا جو یہ تھا۔ “یہ ناول اشتیاق احمد نے میرے مرکزی خیال پر لکھا تھا
یہ کمنٹ پڑھ کر میں چونک اٹھا۔
فوراََان صاحب سے بات چیت شروع کردی اور پھر انکشاف ہوا کہ یہ اشتیاق احمد کے ایک بہت ہی قریبی دوستوں میں سے ہیں اور کراچی میں اشتیاق احمد کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ اسکے علاوہ دو بہت ہی زبردست ناول اشتیاق احمد نے انکے خیالات پر لکھے تھے۔ انہیں اشتیاق احمدنے اپنے ناولوں میں بطور کردار بھی پیش کیا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ میں ایسی شخصیت سے اشتیاق احمد کے بارے میں مزید گفتگو نہ کرتا۔
یہ کمنٹ کیا تھا جناب سید علی وصی زیدی نے اور پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھے ناول “چوتھا ٹکڑا” کا وہ صفحہ بھی بھیجا جس میں اشتیاق احمد نے اس ناول کا انتساب ان کے نام لکھا تھا۔ میں نے وہ گروپ پوسٹ ایڈیٹ کر دی اور پھر میں بڑا حیران ہوا جب صرف کچھ ہی گھنٹوں میں اس پوسٹ کو ایک ہزار سے زائد لوگوں نے وزٹ کیا اوور بہت سے لوگوں نے شیئر بھی کیا۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اشتیاق احمد کے مداحوں کیلئے یہ ایک سرپرائز تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے میرے اپنے لئے۔
اب جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں چونکہ کتاب دوست ویب سائٹ کا پبلشر ہوں اور اشتیاق احمد کا بہت پرانا قاری ہوں لہٰذا ان سے جڑے لوگوں سے بھی ایک غائبانہ تعلق قائم ہو ہی جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنے قارئین کی کچھ یادیں تازہ کرنے اور اشتیاق احمد جیسے عظیم مصنف کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ایک مختٖصرانٹرویو کیا جائے اور آپ کی نظر کیا جائے۔
علی وصی زیدی صاحب مجھے بہت مہربان اور تعاون کرنے والے انسان محسوس ہوئے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ ذرا آپ اپنے اور اشتیاق احمد کے تعلق کے بارے میں مزید کچھ معلومات فراہم کرسکیں تو اشتیاق احمد کے لاکھوں قارئین کی یادیں تازہ ہوجائیں گیااور وہ خوش ہو جائیں گے۔ میں نے ان کو ایک سوالنامہ بھیجاکہ جب بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت ملے ان کے جوابات بھیج دیجئے گا۔
مگر انہوں نے اسی دن مجھ سے رابطہ کیا اور آن لائن کال کی جو تقریباََبیالیس منٹ پر محیط رہی۔ جو گفتگو ہوئی وہ حاضر ہے۔
بعد ازاں ہماری چار پانچ مرتبہ بات ہوئی اور انہوں نے اشتیاق احمد کی کچھ بہت ہی نایاب تصاویر بھی ارسال کیں جو شاید اس سے پہلے کبھی منظرِعام پر نہیں آئیں تو پہلی دفعہ صرف کتاب دوست ڈوٹ کوم ویب سائٹ یہ تصاویر شائع کر رہی ہے۔
علی وصی زیدی عرف شتو سے گفتگو
انٹرویو: شہزاد بشیر ویب پبلشر – کتاب دوست ڈوٹ کوم
Syed Ali Wasi Zaidi (UK) | Shahzad Bashir (PAK) |
سید علی وصی زیدی: السلام وعلیکم۔ سر خیریت سے ہیں آپ؟
شہزاد بشیر: وعلیکم السلام. جی علی بھائی اللہ کا شکر ہے۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے دوسری بار کال کی۔ پہلی بار میں اٹینڈ نہیں کر سکا تھا۔ جس کےلئے معذرت۔ میں تھوڑا مصروف تھا۔
سید علی وصی زیدی: کوئی بات نہیں جناب۔ آپ کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے میں نے مناسب سمجھا کہ بات ہی کر لی جائے لکھ کر دینے سے بہتر ہے وقت بچے گا۔
شہزاد بشیر: جی بالکل درست کہا۔ تو آپ پہلے قارئین سے اپنے اپنا تعارف کروادیجئے۔
علی وصی: میرانام سید علی وصی زیدی ہے اور میں پی آئی اے میں جاب کرتا ہوں بحیثیت اکاؤنٹینٹ اور گزشتہ پچیس برس سے لندن یو ۔ کے میں مقیم ہوں۔
شہزاد بشیر: ماشاءاللہ۔ بہت خوب۔۔۔! تو اشتیاق احمد سے اپنے تعلق کے بارے میں بتائیے گا۔ کیا آپ انکے رشتہ دار ہیں؟
سید علی وصی زیدی: جی نہیں میں رشتہ دار نہیں ہوں۔ میں بھی آپ ہی کی طرح اشتیاق احمد کے ناولوں کا شوقین ہوں۔ دراصل میں اور فاروق احمد(اٹلانٹس پبلیکیشنز کے روحِ رواں) بچپن سے اشتیاق احمد کے ناولز پڑھا کرتے تھے۔ ہماری رہائش کراچی میں تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے ہمارے گھر تھے اور بچپن کے دوست ہیں ہم۔ ہمیں اشتیاق احمد سے ملنے کا شوق تھااور 1980 میں ہم دونوں اشتیاق احمد سے ملنے لاہور گئے تھے۔ اور پھر وہاں سے ہمارا اشتیاق احمد صاحب سے ایک طویل تعلق قائم ہوا جواب تک قائم ہے اور انشاءاللہ رہے گا۔
سید علی وصی زیدی “شتو” اشتیاق احمد کی میزبانی کرتے ہوئے ایک یاد گار تصویر 1981 |
شہزاد بشیر: اچھا۔۔بہت خوب۔ آپ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو نہ صرف اشتیاق احمد سے ملے بلکہ ان کے مہمان بھی رہے۔
علی وصی:جی دراصل فاروق احمد اور مجھے شوق تھا کتابیں پڑھنے کا اور شوق بھی نہیں آپ جنون کہئے۔ ہم اشتیاق احمد سے ملنے گئے اور وہ بہت خوش ہوئے کہ کراچی سے کوئی ان سے بطور خاص ملنے آیا ہے۔ اس وقت وہ اسلام پورہ والے آفس میں رہائش پذیر تھے۔ یعنی آفس کو ہی گھر کا درجہ دیا ہوا تھا۔ جہاں وہ اپنی بیگم کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ہماری بڑی آؤبھگت کی۔
شہزاد بشیر: واہ۔۔ اچھا تو آپ بھی وہاں ان سے ملے اور وہیں رہے؟
سید علی وصی زیدی: جی۔۔ میں اور فاروق ان سے ملے۔ انہوں نے ہمیں لاہور کی سیر کروائی۔ “نعمت کدہ” ایک مشہور ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں لے کرگئے۔ بڑی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔
شہزاد بشیر: آپ میرے تجسس کو ہوا دے رہے ہیں۔ ذرا بتایئے تو اشتیاق احمد کو آپ نے کیسا پایااس وقت؟
سید علی وصی زیدی: اشتیاق احمد کے بارے میں ذرا گہرائی میں جائیں تو وہ شروع میں ذرا ماڈرن انسان تھے۔ بہت ہی نفیس، خوش مزاج اور مہمان نواز انسان تھے۔ ہمیں تو یوں بھی بہت خوشی تھی کی اتنے مشہور رائٹر سے ملاقات ہوئی ہے۔ جب ہم ان سے ملے تو وہ الگ ہی انسان نظر آئے۔ یعنی آپ یہ سمجھیں کہ وہ ایک عام انسان تھے۔ کوئی مغرور یا اونچی سوچ والے نہیں تھے۔ وہ کھیلتے بھی تھے، ہنسی مذاق بھی کرتے، فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے۔ ہندوستان کی مشہور اداکارہ “ہیما مالنی” ان کی فیورٹ اداکارہ تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اور اداکارہ “کلدیپ کور” بھی پسند تھیں جن کی مشہور فلم “بیجو باورا” 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔ غرض کہ اشتیاق احمد ایک الگ ہی انسان تھے۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ مغربی رائٹرز کو بھی پڑھتے تھے۔ بعد ازاں ان کا جھکاؤ مذہب کی طرف بہت زیادہ ہو گیا اور مذہبی رنگ انکی زندگی کے علاوہ ان کی تحریروں میں بھی نظر آنے لگا۔
شہزاد بشیر: بہت خوب۔۔!انکی شخصیت کا یہ ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔
سید علی وصی زیدی: وہ ہم سے بہت فری تھے۔ اور انکو پھر ہم مختلف آئیڈیاز بھی دیا کرتے تھےجن میں سے کچھ پر انہوں نے ناول بھی لکھےجن میں سے ایک ناول میں انسپکٹر جمشید کے بچپن کا ذکر بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اورناول کا مرکزی خیال بھی میں نے پیش کیا جس کا وہ غلطی سے ذکر کرنا بھول گئے۔ میں نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو انہوں نے پھر معذرت کی اور اس کا ذکر اپنے آئندہ ناول میں کیا۔ اشتیاق احمد بہت ہی سادہ طبیعت انسان تھے۔
شہزاد بشیر: جی بالکل اس میں بھلا کیا شک ہے۔ اور آپ خوش قسمت ہیں کہ اشتیاق صاحب سے اتنا گھل مل کے وقت گزار پائے۔
سید علی وصی زیدی: جی ۔۔ وہ جب بھی کراچی آتے فاروق احمد کے گھر قیام کیا کرتے تھے۔ میں اکثر ان کے لئے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا کرتا تھااور وہ بخوشی آیا کرتے تھے۔ وہاں ان سے بہت سی باتیں ہوتیں۔ ہم ساتھ مختلف گیمز اور کھیل بھی کھیلا کرتے تھے۔
سید علی وصی زیدی اشتیاق احمد کو ایک “چیز بوجھنے ” کے کھیل میں موٹر سائیکل کا اشارہ دیتے ہوئے۔ اس کھیل میں یہ دونوں پارٹنر تھے۔ ایک یاد گار تصویر 1981 |
شہزاد بشیر: جی ہاں! انہوں نے اپنی کتا ب”میری کہانی” میں ذکر کیا ہےکہ جب بھی کراچی جاتے تھے فاروق کے ہاں ٹھہرتے تھے۔
سید علی وصی زیدی: جی بالکل۔ اور ان میں سادگی بہت تھی۔ وہ چونکہ پنجاب کے علاقے جھنگ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی سمندر نہیں دیکھا تھاتو پہلی بار ہم ہی انہیں کراچی کے ساحل پر لے گئے تھے۔ سمندر دیکھ کر تو وہ بہت زیادہ ایکسائیٹڈ ہو گئے تھے۔ لہروں کو دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوتے رہے۔ سمندر کی لہروں کو دیکھتے رہے اور گویا ان میں کھو گھئے۔ پھر جب ہم سمندر میں نہانے لگے تو وہ بہت خوف زدہ بھی ہوئے کیونکہ ظاہر ہے ہم ان سے بہت چھوٹے تھے اور ان کو لگا کہ کہیں ہمیں چوٹ نہ لگ جائے۔ اب انہیں تو اندازہ نہیں تھا کہ ہم تو سمندر میں کھیل کھیل کر ہی بڑے ہوئے ہیں۔
شہزاد بشیر: واہ کیا بات ہے۔۔یعنی آپ ان کے میزبان بھی رہے ہیں اور ان کو کراچی کی خوب سیر بھی کروائی۔ اسی لئے شائد بعد میں انہوں نے اپنے بہت سے ناولوں اور خاص نمبروں کے نام سمندر کے نام سے رکھے۔ جیسے “جزیرے کا سمندر، سمندر کا دروازہ، آگ کا سمندر، دلدل کا سمندر، دائرے کا سمندر، غار کا سمندر، حیرت کا سمندر، غلامی کا سمندر، خوف کا سمندر، آخری سمندر، پہاڑ کا سمندر وغیرہ۔ یعنی ان کو سمندر سے سے خاص لگاؤ ہو گیا تھا۔
بہر حال ۔۔ اچھا تو آپ کے کون کون سے آئیڈیاز کو لے کر انہوں نے ناول لکھے؟
سید علی وصی زیدی: ناول “ہولناک لمحے” اور “چوتھا ٹکڑا” میرے آئیڈیاز پر لکھے۔ اور ایک ناول “ریچھ نماآدمی” میں میری بہن کو ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
شہزاد بشیر: بہت خوب ! یہ تو ان کے شاہکار ناول تھے۔
سید علی وصی زیدی: اور ایک ناول” تیسرا آدمی” میں میرا اصلی نام “علی وصی “ بھی ایک کردار کے طور پر پیش کیا اور اسی ناول میں میرا “نِک نیم” بھی یعنی “ شتو “جو میری عرفیت ہے۔۔۔! یعنی ایک ہی ناول میں مجھے دو کردار دیئے گئے۔ اصل میں مجھےیعنی “شتو” اور “مانٹو” یعنی “شعیب” (ہمارا ایک اور دوست) کو انہوں نے بطور مجرم متعارف کروایا ناول “تیسرا آدمی”میں۔
پھر مثبت کردار میں ہمیں ناول “چوٹ پر چوٹ” میں دوبارہ پیش کیا۔ کیونک پڑھنے والوں کو بھی پسند آئے تھے۔
شہزاد بشیر: ارے ہاں۔۔! مجھے یاد ہے۔ صرف شتو ہی نہیں مانٹو بھی ہوتا تھا۔ اور یہ دونوں جیل سے رہا ہونے کے بعد انسپکٹر جمشید سے ملنے آتے ہیں اور وہ ان کیلئے ملازمت کا بندوبست کرنے کا کہتے ہیں۔
یہ ناول ان کے ابتدائی دور کا ایک شاندار ناول تھا۔ تیزی اور ایکشن سے بھرپور ناول ہے۔ اس میں ہمیں مثبت کردار میں لایا گیا تو پڑھنے والوں نے بہت سراہا تھا۔
سید علی وصی زیدی: جی جی ۔۔ مانٹو بھی ہمارے ایک دوست “شعیب ” کا نِک نیم ہے۔ اور وہ بھی ہمارے ساتھ اشتیاق احمد سے ملتے رہے ہیں۔ بلکہ ایک بار جب اشتیاق صاحب ہمارے ساتھ تھے تو انہوں نے ہم سے کہا: “کیا میں تمہیں غنڈہ کردار دے دوں کسی ناول میں؟”۔
ہم نےکہا کہ دے دیں۔۔ تو انہوں نے اس طرح ہمارے کردارد تخلیق کر ڈالے۔ پہلے مجرم، پھر وہ نیک ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ان کو خاص نمبر “ملاشا کا زلزلہ” میں انسپکٹر جمشید کو بچاتے ہوے شہید ہوتا بتایا گیا۔ تو وہ ہم ہی تھے ۔
سید علی وصی زیدی کے گھر ملاشا کا زلزلہ کے کردار شتو، مانٹو اور فاروق کے ساتھ اشتیاق احمد کی ایک یاد گار تصویر 1981 |
شہزاد بشیر: ہاں ۔۔ وہ ناول اور یہ کردارمجھے اب تک یاد ہیں ۔۔ تو وہ آپ لوگ تھے۔۔! کمال ہے۔ یعنی بڑا سرپرائز دیا آپ نے کہ میں اشتیاق احمد کے ایک جیتے جاگتے کردار سے بات کر رہا ہوں۔
سید علی وصی زیدی: میں آپ کو باقی دوکرداروں سے بھی ملواؤں گا۔ یعنی شعیب اور فاروق سے۔
شہزاد بشیر: ضرور جناب کیوں نہیں۔۔! فاروق احمد کے بارے میں تو میں نے اشتیاق احمد کی کتاب میں بھی پڑھا ہے کہ جب انہوں نے لکھنا بند کر دیا تھاتو فاروق احمد ان کے پاس جھنگ پہنچ گئے تھے اور کوئی سولہ گھنٹے کے بعد ان کو دوبارہ لکھنے پر منا لینے کے بعد ہی جان چھوڑی تھی۔
سید علی وصی زیدی: جی بالکل۔۔اشتیاق احمد ایک بار دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔ کیونکہ ان کے پڑھنے والے مطالعے سے دور ہو رہے تھے۔ کمپیوٹر اور موبائل کے آنے کے بعد کیونکہ ناول کی اشاعت گھٹتی جا رہی تھی اور دوسری بات یہ کہ لوگوں کا یہ خیال بھی تھا کہ اب اشتیاق صاحب کے ناول پہلے جیسے نہیں رہے۔ تو انہوں نے لکھنا بند کر دیا تھا۔ مطلب جو عزت انہوں نے کمائی تھی اس کو گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ لوگوں کے پیسے صرف اچھے مواد پرخرچ ہونے چاہئیں یہ ان کا ماننا تھا۔ ہم نے ان کا حوصلہ بڑھایااور کافی مہینوں کے بعد فاروق نے ان سے مل کر ان کو دوبارہ لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس کے بعد ان کے تمام ناول فاروق نے اٹلانٹس پبلیکیشنز سے شائع کیئے۔
شہزاد بشیر: اس کے علاوہ بھی میں فاروق بھائی کے بارے میں اشتیاق احمد کے خیالات پڑھ چکا ہوں
سید علی وصی زیدی: جی جی۔۔ کریڈٹ گوز ٹو فاروق! کیونکہ فاروق ان کو دوبارہ لے کر آیا۔ میں اور فاروق دراصل کتابوں سے بے انتہاعشق کرتے ہیں۔ اور فاروق تو شخص ہے جس کے بارے میں اشتیاق احمد نے خود کہاکہ انسپکٹر جمشید کے بیٹے فاروق کا کردار ان فاروق احمد پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
شہزاد بشیر: جی میں نے پڑھا ہےان کی کتا ب میں۔ اور میں تو خود ان سے ملنے کا خواہشمند ہوں اور اگر موقع ملا تو ان سے بھی ضرور ملوں گا۔
سید علی وصی زیدی: نو پرابلم جناب۔ فاروق سے تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بات ہوئی ہے میری۔ میں کراچی آؤں گا تو آپ سے ملوں گا اور فاروق سے ملواؤں گا۔
شہزاد بشیر: ارے واہ۔ ضرورضرور۔۔ اچھا آپ ذرا فاروق احمد کے بارے میں کچھ بتائیے۔ ہم تو انہیں اٹلانٹس پبلیکیشنز کے حوالے سے جانتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب دوست انسان ہیں جو کتابیں شائع کر کے خوش ہوتے ہیں۔
سید علی وصی زیدی: جی فاروق اور میں بچپن کے دوست ہیں۔ ہم دونوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔ بک پبلشنگ تو اصل میں ان کا شوق ہے۔ ان کا آفس سائٹ کراچی میں ہے۔
شہزاد بشیر: اچھا یہ مجھے نہیں پتہ تھا۔ بہت خوب۔
سید علی وصی زیدی: 1981 میں جب اشتیاق احمد کے والد “مشتاق احمد” حج پر جا رہے تھے تو بذریعہ شپ کراچی پورٹ سے روانہ ہونا تھا۔ تو اشتیاق احمد اور ان کے والد فاروق کے گھر ہی ٹھہرے تھےاور میرے گھر بھی آئے تھے۔ اور پھر ہم نے ہی انہیں حج پر روانہ کیا تھا۔ اس کی تصویریں بھی آپ کو بھیجی ہیں۔
اشتیاق احمد اپنے والد مشتاق احمد کی حجازِمقدس روانگی سے قبل کراچی میں علی وصی زیدی کے ساتھ. 1981 |
شہزاد بشیر: ماشاءاللہ یعنی اپ ان کے والد کی بھی میزبانی کر چکے ہیں۔ اچھا کراچی میں اشتیاق صاحب کو کیا چیز پسند تھی؟
سید علی وصی زیدی: ہاں یہ اچھا سوال ہے۔۔اشتیاق احمد کو “حیدری کے علاقے کی “مونٹینا آئس کریم پارلر ” کی “ڈرائی فروٹ آئس کریم” بہت پسند تھی۔ شاپ والے بھی ہمیں جانتے تھے اور وہ جب بھی آتے تھے ہم ان کو آئس کریم کھلاتے تھے۔
سید علی وصی زیدی: فاروق سے تو اشتیاق احمد بہت زیادہ اٹیچڈ تھے۔ پھر جب اشتیاق احمد کی وفات ہوئی کراچی ایئر پورٹ پر تو فاروق نے ہی تمام انتظامات کئے تھےمیت انکے گھر پہنچانے اور تدفین وغیرہ کے۔
شہزاد بشیر: اچھا ۔۔ جی بہت افسوسناک خبر تھی یہ تمام چاہنے والوں کے لئے کہ ایک لیجنڈ مصنف یوں اس طرح دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ فاروق بھائی کو جزائے خیر دے۔ اور اشتیاق احمد کے درجات بلند کرے۔ آمین ۔
اچھا ۔۔آپ کی آخری ملاقات کب ہوئی اشتیاق احمد سے؟
سید علی وصی زیدی: میں چونکہ لندن آگیا تھا تو فون پر ہی بات ہوتی تھی۔ اور ان سے آخری ملاقات جب ہوئی تھی جب میں اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں تھا اور ایکسپو سینٹر میں نمائش تھی۔ وہاں فاروق نے اشتیاق صاحب کو بھی مدعو کیا ہوا تھا تو وہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی آخری۔ لیکن فون پر تو بہر حال ملاقات رہتی تھی۔
اور ایک خاص بات یہ کہ اشتیاق احمد کے کوئی سو سے زیادہ خطوط تھے میرے پاس جو 1980 سے وہ ہمیں لکھتے رہے تھے کیونک اس وقت موبائل تو تھا نہیں اور ویسے بھی فون سے زیادہ خط و کتابت ہی کی جاتی تھی۔ اب وہ خط بہرحال میرے پاس نہیں ہیں ورنہ ایک زبردست کتاب ان خطوط پر بھی لکھی جا سکتی تھی۔
شہزاد بشیر: اوہ۔۔ یہ تو ہے۔۔ مگر خیر۔۔آپ کے پاس تو ویسے ہی یادوں کا خزانہ موجود ہے۔ جو یقیناََ آپ ہمارے قارئین سے شیئر کرتے رہیں گے اس ویب سائٹ کے توسط سے انشاءاللہ۔
سید علی وصی زیدی “شتو” اشتیاق احمد اور فاروق احمد کی یاد گار تصویر. 1981 |
اچھا ۔۔علی بھائی آپ کی کتابوں سے محبت کا تو ہمیں اندازہ ہو رہاہے۔ کوئی ایسا واقعہ جو آپ کے ذہن میں ہمیشہ آتا ہو کتابوں کے حوالے سے وہ قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں۔۔
سید علی وصی زیدی: بالکل۔۔ ویسے تو بہت سے واقعات ہیں مگر ایک کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔ “علی سفیان آفاقی” جو مشہورفلم پروڈیوسر اور زبردست مصنف ہیں ان کی کتاب “فلمی الف لیلہ” کا پہلا حصہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت بہترین کتاب تھی۔ پہلا حصہ ختم کرنے کے بعد میں دوسرے حصہ کا انتظار کرنے لگا لیکن دوسرا حصہ آیا ہی نہیں۔ یعنی شائع ہی نہیں ہوا۔ تو میں نے اس کتاب کے پبلشر کو فون کیا۔ ان سے پوچھا کہ جناب فلمی الف لیلہ کا دوسرا حصہ کب شائع ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ دوسرا حصہ آئے گا ہی نہیں۔
میں بہت حیران ہوا۔ ان سے استفسار کیا تو بولے: بدقسمتی سے ہمارے مصنف “علی سفیان آفاقی” صاحب سے کچھ معاملات میں اختلافات ہو گئے ہیں اور اب فلمی الف لیلہ کا دوسرا حصہ وہ ہمیں نہیں دے رہے اس لئے وہ ہم شائع نہیں کر سکتے جس کیلئے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔
مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کیونکہ وہ تو ایک بہت ہی بہترین کتاب تھی اور میں خود بھی اس کا دوسرا حصہ پڑھنا چاہتا تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ اور بھی جو ہزاروں لوگ ایسا ہی چاہتے ہونگے ان کے شوق کی بھی تسکین نہیں ہو سکے گی۔
میں نے اس وقت ارادہ کیا اور ان سے علی سفیان آفاقی صاحب کا ایڈریس مانگا تو انہوں نے دے دیا۔ اب چونکہ میں پی آئی اے میں ہوں تو میں نے فاروق سے کہا کہ جیسے بھی ہومیں آفاقی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ لاہور میں رہتے تھے۔ میں نے فاروق کو آمادہ کیا اور دس ہزار روپے کا ٹکٹ لے کر مصنف سے ملنے پہنچ گیا۔ فاروق احمد بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم نے علی سفیان آفاقی صاحب سے ملاقات کی۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ فلمی الف لیلہ کا دوسرے حصہ کا مسودہ ہمیں دیجئے ہم اسے شائع کریں گے۔
یہ جان کر وہ بہت حیران ہوئے اور خوش بھی کہ ہم کراچی سے بطور خاص ان سے ملنے وہاں پہنچے۔ لاہور کے مشہور”ہانڈی ریسٹورنٹ” میں ہمیں دعوت دی اور ہماری کتابوں سے محبت کو سراہا۔ ہماری حوصلہ افزائی کی۔ بعد ازاں انہوں نے بخوشی ہمیں فلمی الف لیلہ کے دوسرے حصہ کا مسودہ دے دیا جس کو پھر فاروق احمد نے اٹلانٹس پبلیکیشنز سے شائع کیا۔ جو پڑھنے والوں کو بے حد پسند آئی اور اب تک لوگ شوق سے خرید کر پڑھتے ہیں۔
شہزاد بشیر: زبردست۔۔میں نے آفاقی صاحب کی کتابیں بھی دیکھی ہیں۔ واقعی یہ آپ کا کتاب دوستی کے حوالے سے کارنامہ ہے کہ ایک بہترین کتاب لوگوں تک پہنچانے میں ذمہ داری اٹھائی اور کامیاب بھی ہوئے۔
سید علی وصی زیدی: اب تو علی سفیان آفاقی صاحب کا رضائے الٰہی سے انتقال ہو چکا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔
شہزاد بشیر: آمین۔ آپ لوگ اپنے شوق میں باکمال ہیں۔ کتابوں کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بہت کم لوگ اتنے جنون کی حد تک کتابوں سے محبت کرنے والے دیکھے ہیں میں نے۔
سید علی وصی زیدی اور فاروق احمد کی یاد گار تصویر. 1981 |
سید علی وصی زیدی: جی بس ۔۔ ہمیں تو شروع سے ہی کتابوں کا جنون ہے۔ اور فاروق تو سمجھیں کہ کتابوں کا دلدادہ ہے۔ اسے بس پتہ چلنا چاہئے کسی کتاب کا۔ اشتیاق احمد سے بھی ان کی کتابو ں کی وجہ سے گاڑھی چھنتی تھی۔ اشتیاق احمد فاروق سے اور مجھ سے کہتے تھے کہ آپ لوگ میرے ناولوں کو تنقیدی نظر سے دیکھا کریں یعنی تعریف کرنے والے تو ہزاروں لاکھوں ہیں مگر آپ مثبت تنقید کیا کریں۔ اور ہم ایسا ہی کرتے تھے۔ ان کو ہماری تنقید پسند بھی آتی تھی اور وہ اس اسکو سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔
شہزاد بشیر: جی مجھے اندازہ ہے اس بات کا۔ میں فاروق صاحب سے ملنا چاہوں گا۔ ویسے بھی غائبانہ تعلق اشتیاق احمد کے حوالے سے پہلی ہی موجود ہے۔
سید علی وصی زیدی: شہزاد صاحب! آپ سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ صرف ہم اکیلے ہی نہیں ہیں کتاب دوستی کی راہ پر آپ جیسے لوگ بھی ہیں جو صرف باتیں نہیں کرتے بلکہ عملی قدم اٹھا کر ثابت کرتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے پڑھنے والے تو لاکھوں ہیں مگر مجھے بہت حیرت ہوئی آپ کا شوق دیکھ کر۔ جیسے آپ نے مجھ سے اشتیاق احمد کے بارے میں معلومات لیں واقعی آپ بھی اشتیاق احمد کے بہت بڑے مداحوں میں سے ہیں۔ آپ نے تو پوری ویب سائٹ ہی بنا ڈالی۔ اور ان کے تمام ناول اور خاص نمبرز باقاعدہ ترتیب وار اور مکمل معلومات کے ساتھ پبلش بھی کردیئے۔ یہ واقعی اشتیاق احمد کے قارئین کے لئے ایک تحفہ ہے آپ کی طرف سے۔
شہزاد بشیر: جی بس۔۔ آپ کی طرح بچپن سے کتابوں کا شوق رہا ہے اور سب سے پہلے جس مصنف کو پڑھنا شروع کیا وہ اشتیاق احمد ہی ہیں۔ 1983 میں میں نے ان کا پہلا ناول “خون آلود خنجر” پڑھاتھااور اس وقت میں تیسری کلاس کا طالبعلم تھا۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی میں نے کتاب دوست ویب سائٹ پر شیئر کیا ہے”اشتیاق احمد کے ناول اور میں” اس کا ٹائٹل ہے اور اب تک ہزاروں لوگ اس کو پڑھ چکے ہیں۔
INSPECTORJAMSHEDWEBSERIES.COM is live
ویسے آپ کی اور قارئین کی اطلاع کے لیئے بتانا چاہتا ہوں کہ حال ہی میں انسپکٹر جمشید کی ویب سیریز کا ٹریلر جاری کیا گیا ہے ایک میڈیا کمپنی کی طرف سے جو کہ 2021 کے پہلے کوارٹر میں یعنی مارچ یا اس سے پہلے ریلیز ہو سکتی ہے۔ میں نے کتاب دوست ویب سائٹ کے تحت اس حوالے سے ایک اور ویب سائٹ شروع کی ہے جو 100 فیصد اشتیاق احمد کے ناولز اور ویب سیریز کی ویڈیوز، اقساط، ٹریلرز اور دیگر ویڈیو کونٹنٹ پر مبنی ہے۔ یہ ویب سائٹ گوگل کے پہلے پیج پر آپ کو نظر آئے گی۔ انسپکٹر جمشید ویب سیریز ڈاٹ کوم اس کا نام ہے۔ قارئین سے بھی درخواست ہے کہ اشتیاق احمد کے تمام ناول اور خاص نمبرز انسپکٹر جمشید سیریز ، انسپکٹرکامران مرزا سیریز اور شوکی سیریز کے اس ویب سائٹ پر موجود ہیں اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور دیکھیں کہ یہ نیا تجربہ کیسا لگا۔ میں خود بھی لکھنے لکھانے کا شوقین ہوں اور بچپن میں مختلف رسائل میں تحریریں بھیجتا رہا ہوں جو چھپتی بھی تھیں اور مجھے اعزازی کاپیا ں بھی موصول ہوتی تھیں۔
مزید یہ کہ میں نے اپنی زندگی بہت دلچسپ واقعات کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس کے دوسرے واقعے “سپر مین ” کو لوگوں نے ہزاروں کی تعدادمیں وزٹ کیا اور پسند کیا ہے۔
اسکے علاوہ میں نے اشتیاق احمد کے دو بہت ہی مشہور و معروف ناولز “باطل قیامت” اور ” بیگال مشن” کا خلاصہ تحری اور ویڈیو کی شکل میں پبلش کیا ہے۔ مزید یہ کہ انسپکٹر جمشید کی بائیو گرافی تحریری اور ویڈیو فارمیٹ میں پبلش کی ہے۔
SHAHZAD BASHIR New Novel (Suspense Action Thriller) |
سید علی وصی زیدی: زبردست۔ بہترین کام کر رہے ہیں آپ۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا کرے۔ لوگو ں کو واپس مطالعے کی طرف لے کر آنے میں آپ اپنی ویب سائٹ کے ذریعے بہت اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔
شہزاد بشیر: آپ کا تعاون بھی اس میں شامل رہے گا۔ آپ کا بہت شکریہ میری طرف سے بھی اور کتاب دوست کے قارئین کی طرف سے بھی بلکہ اشتیاق احمد کے دنیا بھر میں موجود تمام قارئین کی طرف سے۔
سید علی وصی زیدی: آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا اور کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اپنا خیال رکھئے گا۔ اللہ حافظ۔
شہزاد بشیر: آپ بھی اپنا خیال رکھئے گا۔ اللہ حافظ
جی قارئین تو یہ تھاایک مختصر انٹرویو اشتیاق احمد کے ایک پرخلوص کردار شتو کے ساتھ۔ آپ کو پسند آیا ہوگا۔
یوں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اشتیاق احمد کے بارے میں لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اس گفتگو میں وہ معلومات آپ تک پہنچانا مقصود تھا جو ان کے ابتدائی دور سے متعلق ہے۔ اور شاید قارئین نہیں جانتے یا بھول چکے ہیں۔ خاص طور پر وہ قارئین جو نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور موبائل و کمپیوٹر کے دور میں جی رہے ہیں ان کے لئے یہ معلومات اشتیاق احمد کی شخصیت کے بارے میں جاننے میں معاون ثابت ہوگی۔
میں نے کتاب دوست ویب سائٹ میں اشتیاق احمد کے تمام ناولز بمعہ مکمل انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز اور خاص نمبرز پیش کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ انسپکٹر جمشید ویب سیریز جو عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے کی ویڈیوز، ٹریلرز اور اقساط شیئر کرنے کیلئے ایک اور ویب سائٹ شروع کی ہے ۔۔۔ ابھی وزٹ کریں۔
یہ انٹرویو آپ کو کیسا لگا کمنٹ کر کے بتائیے گا تاکہ آپ کی آراء کی روشنی میں بہتری لائی جا سکے۔ شکریہ۔
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |