batil-qayamat video cover copy

Novel Review & Video Summary: Batil Qayamat

Khas Numbers Summary - خاص نمبرز کا خلاصہ Shahzad Bashir

Kitab Dost Novel Reviews is a unique way to elaborate and summarize Novel content in a different way to those who couldn’t read the novel because of any reason and the kids are living outside Pakistan where the novels are not available or they don’t have time to read such long novels. Here is the summary of this novel that is easy to understand the whole novel without reading it fully. How is this, Let me know by comments or email. Thanks 

Cast your Vote for the Rating of this Summary in the End

Don’t miss to Watch Batil Qayamat Summary Video in the End. 

Kitab Dost Rating: (KDR) for Batil Qayamat: 9/10 ★★★★★★★★★★

batil qayamat novel by ishtiaq ahmed

ناول کا نام: باطل قیامت
مصنف : اشتیاق احمد [دسواں خاص نمبر – سنِ اشاعت: 1987]
کل صفحات: 840
مرکزی خیال: فتنہ قادیانیت اور ان کی سازشوں سے آگاہی

  ★★★★★★★★★ 9/10 :کتاب دوست ریویو ریٹنگ

اشتیاق احمد کے مطابق یہ ناول 29 دن میں لکھا گیا۔ 4 گھنٹے روزانہ۔ ٹوٹل 116 گھنٹے میں باطل قیامت کے 840 صفحات لکھے گئے۔ اس سلسلے میں ناول کی “دوباتیں” پڑھ لیجئے۔ اس میں انھوں نے اپنے خلاف کی جانے والی قادیانی سازش کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ قادیانی سازشوں کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کرتے رہیں گے۔

Watch Batil Qayamat Novel Summary in a Video format

Ishtiaq Ahmed Novels Summary for the first time on the internet

Kitab Dost presenting Video Summary of Batil Qayamat Novel Khas Number written by Ishtiaq Ahmed.  “Video Editing by Shahzad Bashir”


Subscribe youtube channel for more Video Summaries of Ishtiq Ahmed Novels Khas Numbers.

Please comment and tell me if you like this video. Like & follow on Facebook Kitab Dost Page

Download full novel : Batil Qayamat

آپ کے خیال میں ناول کی ریٹنگ کیا ہے؟
خلاصہ کی آخر میں اپناووٹ دیجئے۔please cast your vote for the novel rating in the end.

ناول کا خلاصہ

باطل قیامت دراصل سیکوئیل ہے ایک بہت ہی منفرد سیریز کا جو “دس سیریز” کے نام سے اشتیاق احمد نے باطل قیامت سے ایک ماہ پہلے لکھی تھی اور اس میں منفرد بات یہ تھی کہ یوں تو یہ تینوں پارٹیوں کی مشترکہ مہم تھی لیکن اس سیریز کے چاروں ناولز میں انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا، خان رحمان اور پروفیسر داؤد شامل نہیں اور صرف بچوں نے اس سیریز میں کارنامے انجام دیئے ہیں۔ اس سیریز کے چار حصے یہ ہیں۔

مہم جو دس سنسنی خیز دس ہنگامہ آراء دس خطرناک دس

باطل قیامت کو آپ دس سیریز کا پانچواں حصہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس خاص نمبر کے شروع میں ہی بچوں کو بڑوں یعنی انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا وغیرہ کے بارے میں اطلاع مل جاتی ہے جب ایک خط صدرِمملکت کو بھیجا جاتا ہے تاکہ ان بچوں کو بھی بڑی پارٹی کے پاس روانہ کر دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ روانہ ہوتے۔ سی مون جو جیل سے فرار ہو گیا تھا ان سے مل کر یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بڑی پارٹی آخر کہاں غائب ہے مگر اسے کامیابی نہیں ہوتی۔ اب صدرِ مملکت ان کو خفیہ طریقے سے بڑوں کے پاس روانہ کر دیتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ سی مون چالاکی سے ان کے ساتھ ہی دوسرے بھیس میں پہنچ گیا ہے۔ یہ سب لوگ اس وقت ریاست کنگلات کی سرحد پر بیگال کی سرحد سے 10 منٹ کی دوری پر موجود ہوتے ہیں۔
وہاں انسپکٹر جمشید اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ آخر وہ غائب کیوں ہو گئے تھے اور اتنے عرصے غائب رہ کر کیا کرتے رہے۔ وہاں انسپکٹر کامران مرزا ، خان رحمان اور پروفیسر داؤد بھی ہوتے ہیں۔
سی مون وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور بیگال کے صدر کے ساتھ ان کو گرفتار کرنے کا معاہدہ کرنے کی دھمکی دے جاتا ہے۔
اب ان سب کو بیگال کی سرحد پار کرکے بیگال جانا ہوتا ہے تاکہ یہ پتہ چلا سکیں کہ بیگال نے کونسی عظیم کامیابی حاصل کی ہے؟

  ★★★★★★

سی مون کی چال

یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ بیگال بہت طاقتور ملک ہے اور ریاست کنگلات ایک بہت ہی کمزور ریاست ہے جو بیگال کے ساتھ لگتی ہے لیکن اس ریاست کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے یعنی بیگال کے لوگ جب چاہیں ریاست کنگلات میں گھس کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں ان کی بیگالی سرحدی محافظوں سے جھڑپ ہوتی ہے جس میں وہ مارے جاتے ہیں اور یہ سب اپنی ذہانت استعمال کر کے بیگال کی سرحد میں گھس جاتے ہیں لیکن اب چونکہ سی مون نے بیگال کا ساتھ دینے کے لئے معاہدہ کر لیا ہے لہٰذا وہ اپنی منصوبہ بندی سے ان سب کو گرفتار کر وا دیتا ہے۔ اور ان کو ایک قید خانہ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے دن ان کو ایک بہت بڑے اسٹیڈیم میں لے جا کر پھانسی کی سزا سنا دی جاتی ہے جس پر سی مون بیگال کے صدر کے خلاف ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے بہادر دشمنوں کو اس طرح مرتا نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ ان سب کو اسٹیڈیم سے کسی طرح بچا کر لے جاتا ہےاور ایک جزیرہ پر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ وہاں وہ ان کو یہ بتا دیتا ہے کہ جو بھی عظیم کامیابی بیگال نے حاصل کی ہے وہ صرف اس کی نہیں بلکہ تمام غیر مسلم ممالک کی کامیابی ہےاور سب اس میں حصہ دار ہیں۔

اب ان کے لئے یہ جاننا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ آخر وہ کیا عظیم کامیابی ہے جو بیگال نے حاصل کی ہے۔

★★★★★★

وادی مرجان میں جھڑپ

اب یہ سب گھر پہنچ جاتے ہیں وہاں ان کو خیال آتا ہے کہ بیگال کی فوج میں جابانی کیوں بھرتی ہوتے ہیں ؟ اس کا مطلب ہے کہ کسی نہ کسی جابانی کو بھی بیگال کے منصوبہ کا راز معلوم ہونے کا امکان ہے۔
اب یہ سب فیصلہ کر تے ہیں اور وادی مرجان جو کہ جابانیوں کا گڑھ ہے وہاں بھیس بدل کر پہنچ جاتے ہیں۔

wadi e marjan novel by ishtiaq ahmed

 اشتیاق احمد کا ناول وادی مرجان پڑھئے




وہاں یہ مرزا خاسر سے ملاقات کرتے ہیں اور اس سے بیگال سے متعلق سوالات کرتے ہیں تو وہ غصے میں آجاتا ہے اور جب یہ وہاں سے نکلتے ہیں تو ان پر حملہ ہو جاتا ہے اور پہاڑیوں میں ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے پھر یہ سب دوبارہ مرزا خاسر کے محل میں جاتے ہیں تو وہاں ان کو گیس کے ذریعے بے ہوش کر کے مردہ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے یہ آئی جی صاحب کی مدد سے نکلتے ہیں۔ مرزا خاسر وہاں سے ملک ڈومان فرار ہو جاتا ہے۔
اب یہ سب بھی اس کے پیچھے ڈومان جاتے ہیں کیونکہ فرزانہ نے خیال پیش کیا تھا کہ شاید بیگال کے لئے مرزا خاسر نے ہی وہ منصوبہ بنایا ہے جس کو بیگال عظیم کامیابی قرار دے رہا ہے۔
چنانچہ یہ سب ڈومان کے صدر سے ملتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مرزا خاسر اس کا خاص دوست ہے۔اور وہاں اس کا ایک خاص ہوٹل ہوتا ہے تو یہ اس ہوٹل میں ٹھہرنے جاتے ہیں۔ وہاں ان کو پتہ چلتا ہے کہ ہر کمرے میں آوازیں سننے کے آلات لگے ہوئے ہیں۔
اس راز کو یہ افشاء کرتے ہیں تو مرزا خاسر اس ہوٹل سے بھی فرار ہو جاتا ہے۔ ہوٹل کو بند کر دیا جاتاہے اور یہ سب شہر سے باہر ایک جنگل میں اپنا عارضی ہیڈ کوارٹر بناتے ہیں۔
اب یہ منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ ہو نہ ہو مرزا خاسر اسی ہوٹل میں دوبارا ملے گا تو اس کو اغوا کرنے کے لئے فاروق اور آفتاب کو بھیجا جاتا ہے۔
اب یہ دونو ں پہلے تو خوب گل کھلاتے ہیں پھر آخر کار یہ مرزا کو اغوا کر کے جنگل میں اسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں باقی سب موجود ہیں ۔

  ★★★★★★

خوفناک انکشاف

اب یہ اس سے اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ایک درخت سے اپنا سر ٹکرا کر خودکشی کر لیتا ہے اور وہ راز معلوم نہیں کر پاتے۔ مگر مرنے سے پہلے یہ اس سے یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ اسی شہر میں ہونا ہے۔ یہاں ملک انشام کی پولیس آجاتی ہے اور ان سب کو گرفتار کر کے انشام کے صدر کے پاس لے جاتے ہیں جو پہلے ہی مرزا خاسر کا دوست ہوتا ہے۔ وہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ جب سے مرزا خاسر انشام کے صدر کا دوست بنا ہے تب سے بیگال نے انشام پر حملہ نہیں کیا۔ اس سے انسپکٹر جمشید اندازا لگا لیتے ہیں اور انکشاف کر دیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں انشام کا صدر بھی جابانی ہو چکا ہے۔

یہ سن کر انشام کا صدر ان کی موت کا حکم دے دیتا ہے اور سو سپاہی ان کو ختم کرنے کیلئے لے جاتے ہیں۔
اب یہاں سے جو باب شروع ہوا ہے وہ پورا باب انتہائی اہم ہے کیونکہ اس پورے باب میں یعنی صفحہ 311 سے 334 تک اشتیاق احمد نےقادیانی فتنہ کو بے نقاب کیا ہے۔ 

  ★★★★★★

جابانیت کی شکست

ریاض شان ان سب کو لے کر جا رہا تھا تو ان کے درمیان ختمِ نبوت پر بحث چھِڑ جاتی ہے جس میں یہ اس کو چیلنج کردیتے ہیں کہ جابانی جھوٹ اور فتنہ ہے۔ وہ نہیں مانتا تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ابھی اس کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ انسپکٹر جمشید اسے مرزا غلام قادیانی کی کتاب تذکرہِ الشہادتین کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس میں مرزا کہتا ہے کہ حدیث کی کتاب “بخاری شریف” میں میرا ذکر موجود ہے، حلیہ درج ہے اور قادیان کا نام بھی آیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ اور غلط ہے کیونکہ اس پر ریسرچ ہو چکی ہے اور ایسا کچھ بھی بخاری شریف میں کہیں نہیں لکھا۔ ہم چیلنج کرچکے ہیں جابانیوں کو کہ وہ یا تو بخاری شریف میں لکھا ہوا دکھا دیں یا مرزا کو جھوٹا مان لیں۔لیکن جابانی نہ تو اس کا جواب دیتے ہیں نہ جابانیت چھوڑتے ہیں۔
ریاض شان مرزا کی کتاب منگواتا ہے۔ ساتھ ہی بخاری شریف کے ایک عالم علامہ خاور کو بھی بلایا جاتا ہے۔ اب انسپکٹر جمشید ان کے سامنے مرزا کی کتاب کا وہ صفحہ کھولتے ہیں جس میں اس نے اپنے نبی ہونا کا ذکر بخاری شریف میں بتایا تھا۔ وہ عالم دیکھتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے ایسی کوئی بات بخاری شریف میں نہیں لکھی ہے۔
یہ بات سن کر ریاض شان اور وہ تمام سپاہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ ریاض شان وہاں جابانیوں کے مربی مرزا مبشر کو بلوا لیتا ہے جو جابانیوں کا رہنما تھا۔ یہ اسکو 8 سے 10 گھنٹے کا وقت دیتے ہیں لیکن وہ تھک جاتا مگر بخاری شریف میں کہیں بھی وہ بات لکھی ہوئی نہیں ملتی جو جھوٹے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں کہی تھی۔ آخر وہ خود اقرار کرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں جھوٹ کہا اور وہ لعنت بھیجتا ہے اس پر۔ یہ سن کر ریاض شان اور باقی سپاہی بھی دوبار تجدید ایمان کرتے ہیں۔

★★★★★★




اچانک انھیں خبر ملتی ہے کہ بیگال نے انشام کی سرحد پر حملہ کر دیا ہے۔کیونکہ اسے مرزا خاسر کے مرنے کی اطلاع مل چکی ہوتی ہے۔ اب وہ دوبارہ اسی جنگل والے اڈے پر جاتے ہیں اور وہاں سے دو دو کی ٹولیاں بنا کر شہر میں نگرانی کرنے نکل جاتے ہیں۔ انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا دوبارہ ہوٹل جاتے ہیں تو وہاں انکی جھڑپ ہوٹل کے منیجر سے ہوتی ہے جو  جابانی ہوتا ہے۔

ادھر جنگل میں صرف شوکی اور پروفیسر داؤد رہ جاتے ہیں تو یہ لوگ اپنی حفاظت کے لئے کچھ تیاری کرلیتے ہیں اور اس وقت ایک آدمی ان پر حملہ کر دیتا ہے لیکن یہ اس کو زخمی کر دیتے ہیں ابھی یہ اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی اسے چھپ کر گولی مار دیتا ہے۔ وہاں چار دشمن ہوتے ہیں۔

  ★★★★★★

لانچ کا تعاقب

ادھر فاروق اور آفتاب جابانیوں کی تلاش میں سمندر تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کو وہاں سات مشکوک لوگوں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ لانچ کے پیچھے تیرتے ہوئے سمندر میں ایک جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں لانچ تو ہوتی ہے مگر ساتوں آدمی غائب ہوتے ہیں۔
یہ وہاں انتظار کرتے ہیں کہ ساتوں لوگ آخر کہاں غائب ہو گئے۔

آخر یہ فیصلہ کرتے ہیں اور لانچ کو چھوڑ کر اسی طرح تیر کر واپس جاتے ہیں اور پھر ٹیکسی لے کر جنگل والے اڈے پر پہنچ جاتے ہیں وہاں وہ ایک عجیب منظر دیکھتے ہیں۔

★★★★★★

ہولناک منظر

محمود اور اشفاق ایک ٹیم بن کر شہر کا چکر لگانے نکلتے ہیں تو ایک جابانی کا تعاقب کرتے ہوئے وہ ایک ہوٹل میں پہنچ جاتے ہیں ۔ وہاں وہ اس جابانی سے ملاقات کر کے پوچھتے ہیں کہ آخر جابانی اس شہر میں کیوں آتے جا رہے ہیں اس شہر میں کیا ہونےوالا ہے۔ وہ جابانی پولیس کو بلالیتا ہےلیکن محمود اور اشفاق دوبارہ اس کی نگرانی کرنے کے لئے اس کے برابر والے کمرے میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سے جب روشن داں کے ذریعے وہ جابانی کے کمرے میں جھانکتے ہیں تو منظر دیکھ کر اشفاق بے ہوش ہو جاتا ہے

★★★★★★

آسمان میں بت

فرزانہ اور فرحت دونوں بھی اسی چکر میں کہ کوئی جابانی نظر آئے شہر سے باہر نکل جاتی ہیں رات ہوچکی ہوتی ہے ایسے میں انھیں آسمان سے ایک چیز زمین کی طرف آتی نظر آتی ہے۔ وہ دھیمی رفتار سے زمین کی طرف آ رہی ہوتی ہے۔ پہلے فرحت بولتی ہے کہ شاید یہ ٹوٹتا تارہ پھر کہتی ہے کہ شاید کوئی اڑن طشتری ہے۔ فرزانہ بولتی ہے کہ نہیں یہ کچھ اور ہے جو اتنی دھیمی رفتار سے زمین کی طرف آ رہی ہے۔ آخر وہ زمین پر آ جاتی ہے۔ یہ چھپ کر دیکھتے ہیں۔ تو بہت سے لوگوں کے درمیان میں ایک سنگ مرمر کا بت ہوتا ہے جو آسمان سے آیا ہوتا ہے۔ اسی وقت وہاں ریاست کی پولیس آجاتی ہے اور بت کو لے جاتی ہے۔ بعد میں یہ دونوں جائزہ لیتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی گڑھا تک نہیں ہے حالانکہ وہ بت آسمان سے گرا ہوتا ہے۔

★★★★★★

جنگل میں جنگ

دوسری طرف آصف اور اخلاق بھی خاک چھانتے رہے تھے کہ انھیں خان رحمان اور آفتاب مل جاتے ہیں وہ ایک سمت میں جاتے ہیں تو انھی بہت سے جنگلی نظر آتے ہیں جو ناچ رہے ہوتے ہیں وہ چھپ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے فرزانہ اور فرحت کو ایک جگہ باندھا ہوا ہوتا ہے اور کچھ جابانی ان کو موتیوں کے عوض بھینٹ چڑھانے پر تیار ہوتے ہیں ۔ یہ گروپ ان دونوں کو چھڑوا لیتا ہے۔اس جھڑپ میں جابانی مارے جاتے ہیں۔اب یہ ان کی تلاشی لیتے ہیں تو انھیں ایک ریموٹ کنٹرول ٹائپ کا آلہ مل جاتا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہے۔ وہ واپس جنگلے والے ہیڈ کوارٹر کی طرف آتے ہیں۔

★★★★★★

چھلانگ لگا دو

انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کی ہوٹل کے منیجر سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں باقاعدہ ایک سائنسی کنٹرول روم ہے وہ سائنسی ایجاد کے حصار میں ہوتا ہے اس لئے وہ دونوں اس کا کئچھ بگاڑ نہیں پاتے اور وہ ان پر اپنی ایک سائنسی ایجاد سے قابو پا لیتا ہے۔

وہاں وہ بری طرح پھنس جاتے ہیں اور دشمن انھیں کہتا ہے کہ عمارت کھڑکی سے چھلانگ لگادو اور انھیں یہی کرنا پڑتا ہے۔

بالآخر یہ دونوں کھڑکی کے ذریعے نیچے کود جاتے ہیں جہاں ان کے ساتھی ان کو بچا لیتے ہیں۔ اب یہ واپس جنگل کی طرف جاتے ہیں تو ان کا تعاقب ہوتا ہے اور یہ لوگ تعاقب کرنے والے کو جنگل میں گھیر لیتے ہیں۔
وہ بارٹانی ہوتا ہے اسی ہوٹل کا منیجر جہاں سے یہ جان بچا کر بھاگے تھے۔ اب یہ اس کو قابو کر لیتے ہیں اور اس سے پوچھ گچھ کرنے لگتےہیں لیکن وہ انگوٹھی کے زہر سے خودکشی کر لیتا ہے۔ اب یہ سب محتاط ہو کر جنگل میں اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف جاتے ہیں۔

ادھر فاروق اور آفتاب جب جنگل والے اڈے پر آتے ہیں تو وہ چار دشمن جنھوں نے شوکی اور پروفیسر داؤد کو گھیرا ہوتا ہے ان پر فائرنگ کرنے ہی والے ہوتے ہیں۔ یہ ان پر قابو پالیتے ہیں۔ وہیں ان کو ایک ریموٹ کنٹرول ڈیوائس مل جاتی ہے۔ ابھی یہ جائزہ لے رہے ہوتے ہیں کہ باقی گروپ ان تک پہنچ جاتا ہے۔

★★★★★★




انٹرنیشنل مداری

اب محمود اور اشفاق کی سن لیں۔ اشفاق منظر دیکھ کر بے ہوش ہو گیا تھا جبکہ محمود نہیں ہوا تھا۔ کمرے میں مقیم ایک اور لڑکی ہوتی ہے وہ بھی دیکھتی ہے مگر بے ہوش نہیں ہوتی۔ محمود اس سے بولتا ہے کہ آپ ایسا منظر پہلے بھی دیکھ چکی ہیں وہ کہتی ہے کہ ہاں میں نے پہلے دیکھا ہے۔ اب یہ پولیس کو بلاتے ہیں کمرا میں جا کر دیکھتے ہیں تو خالی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدمی دوبارہ انھیں مل جاتا ہے یہ اس سے پوچھتے ہیں منظر کے بارے میں جس میں ایک انسان کا پیٹ چیرا ہوا ہوتا ہے اور اس کی انتڑیاں باہر ہوتی ہیں اب جب یہ دوبارہ اس کا کمرا دیکھتے ہیں تو وہاں ایسا کوئی منظر نہیں ہوتا۔ وہ آدمی بولتا ہے کہ میں انٹر نیشنل مداری ہوں اور وہ سب نظر کا دھوکا تھا۔
اب وہ پولیس والا بولتا ہے کہ میں آپ کا شاگرد بن جاتا ہوں۔ اس طرح محمود اور اشفاق وہاں سے ہٹ جاتے ہیں لیکن اچانک انھیں لگتاہے کہ مداری نے چکر دیا ہے وہ واپس جاتے ہیں تو واقعی مداری جس کا نام تام لوٹ ہوتاہے غائب ہوتا ہے۔ اب یہ دونوں واپس جاتے ہیں تو اشفاق کو بھوک لگ جاتی ہے یہ ایک ہوٹل میں جاتے ہیں تو وہاں ان کی پھر تام لوٹ سے عجیب حالات میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ یہ واپس جنگل کی طرف جاتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتاہے کچھ گڑبڑ ہے۔ یہ محتاط ہو جاتے ہیں۔ انکی طرف دشمن آتے ہیں مگر یہ سب مل کر ان پر قابو پا لیتے ہیں۔

  ★★★★★★

سمندر میں ستون

اب یہ سب مل کر اپنے اپنے واقعات سناتے ہیں اور فاروق اور آفتاب کا سمندر والا واقعہ سن کر سب ادھر کا رخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس وقت تک بیگال اور انشام کی جنگ بحری بری اور فضائی تینوں محاذوں پر شروع ہو چکی ہوتی ہے۔

اب یہ سمندر میں اس جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں فاروق اور آفتاب تیر کر گئے تھے اور لانچ کو ایک جگہ پر خالی دیکھ کر واپس آگئے تھے۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ وہاں تک کسی لانچ سے یا ہیلی کاپٹر سے بھی نہیں جا سکتے کیونکہ جنگ ہو رہی ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ صرف ایک راستہ ہے پہاڑوں کو پار کرکے ایک جگہ جہاں حملے کا خطرہ کم ہے وہاں سے سمندر میں جایا جا سکتاہے۔ یہ اسی راستے سے جانے کی کوشش کرتےہیں۔ یہاں پہاڑ کے دوسری طرف انھیں منور علی خان مل جاتے ہیں۔ یہاں وہ بیگال کے فوجیوں کے خلاف ایک چال چلتےہیں اور ان کی لانچ پر قبضہ کر کے سمندر میں اس جگہ لے جاتے ہیں جہاں فاروق اور آفتاب گئے تھے۔
انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا اس جگہ غوطہ لگاتے ہیں اور پھر واپس آکر بتاتے ہیں کہ اس جگہ پانی کے نیچے ایک ستون موجود ہے۔

  ★★★★★★

اشماریہ

اب یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ سمندر میں ستون کا کیا کام اور اس کے اندر کیسے جائیں۔ یہاں پروفیسر داؤد کی ذہانت کام آتی ہے اور وہ اسی ریموٹ کنٹرول آلے کا استعمال کرتے ہیں جو ان کو دشمنوں سے ملا تھا اور دوسرا جو فرزانہ اور فرحت کو بھینٹ چڑھوانے والے جابانیوں کے پاس سے ملا تھا۔ یعنی وہ ستون کا کنٹرول تھا۔
اب یہ سب اس ستون میں داخل ہو جاتےہیں اور وہ سمندر کی تہہ میں چلاجاتا ہے۔ یہ جیسے ہی نیچے پہنچتےہیں وہاں دو روبوٹ ان سے شناخت پوچھتے ہیں جو ان کو نہیں پتہ ہوتی۔ ان کو اس ستون کے باس کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ جو اس کو کنٹرول کر رہا تھا۔ وہاں پوری سائنس لیب ہوتی ہے اور سائنسدان کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کا باس سے سامنا ہوتا ہے تو یہ چونک جاتے ہیں کیونکہ باس کوئی اور نہیں “اشماریہ” ہوتی ہے جس سے ان کی پہلے بھی جھڑپ ہو چکی تھی۔
اس وقت وہاں اشماریہ سمیت اور بھی لوگ ہوتے ہیں لیکن وہ ایک سائنسی ایجاد کی وجہ سے محفوظ ہیں اور انھیں چھوا نہیں جا سکتا۔ وہاں انھیں 3 ماہ کے لئے سلا دیا جاتا ہے کیونکہ اصل منصوبہ 3 ماہ بعد شروع ہونا ہے۔

  ★★★★★★

تین ماہ بعد

 تین ماہ بعد ان کو ہوش میں لایا جاتا ہےاشماریہ انھیں بتاتی ہے کہ منصوبہ کی تکمیل ہو چکی ہے اور اب آخری مرحلہ طے کرنا ہے۔ لیکن بیگال اور انشام کی جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور ایک شخص کی وجہ سے انشام کامیابیاں حاصل کر رہاہے۔ پھر وہ ان سب کو ایکبار دوبارہ سلا کر اس ستون سے باہر لانچ میں پہنچا دیتی ہے اور اب یہ آزاد ہیں مگر دوبارہ اس ستون میں نہیں جا سکتے۔
اب یہ سب واپس ڈومان کے ساحل پر پہنچتےہیں مگر انھیں بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس جانا ہوگا جس کا نام غازی مہدی ہے اور اس کے آنے کے بعد مسلمان فتح پا رہے ہیں۔ یہ اس سے ملتے ہیں وہ انھیں 3 دن میں ان کے بارے میں تصدیق کرنے کا بتاتا ہے۔ اور یہ دیکھتےہیں کہ مسلمانوں میں بڑا جوش و خروش ہوتا ہے جیسے خلفائے راشدین کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ وہ غازی مسجد میں امامت کر نے جاتا ہے تو ان کو بھی لے جاتا ہے۔ ابھی موذن نے تکبیر کہی ہوتی ہے کہ پیچھے سے آواز آتی ہے کہ آسمان سے کیا آ رہا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ آسمان سے ایک انسان اتر رہا ہے بالکل جیسے وہ بت اترا تھا جو فرزانہ اور فرحت نے دیکھا تھا۔

  ★★★★★★




مسیح موعود کی آمد

وہ ٹھیک مسجد کے مینار پر آکر ٹھہر جاتا ہے۔ اسی وقت غازی مہدی کہتا ہے کہ یہ تو روح اللہ یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں۔ جن کی پیشنگوئی حضرت محمد ﷺ نے کی فرمائی تھی۔ وہ شخص سیڑھی لانے کا کہتا ہے اور پھر نماز میں غازی مہدی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے یعنی وہ حضور ﷺ کی پیشنگوئی کے مطابق سب کچھ کرتا ہے۔ سب لوگ اس کو حضرت عیسٰی مان لیتے ہیں اور وہ دجال کو قتل کرنے نکل جاتا ہے لیکن یہ لوگ چونکہ سارا منصوبہ دیکھ چکے تھے اس لیئے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایک سازش ہے۔ یعنی اب پوری دنیا اس شخص کو حضرت عیسٰی سمجھ کر پیچھے چلے گی اور جو یہ کہے گا وہ دنیا کرے گی اور مانے گی۔
اب یہ سب ایک مکان میں جاک غور کرتے ہیں کہ اس خطرناک فتنے سے کیسے نپٹا جائے۔ابھی یہ منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں کہ ریڈیو پر خبر آتی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دجال کو قتل کر دیا ہے۔ اور یوں شہر کے شہر اسکے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
یہ سب منصوبہ بناتے ہیں کہ اسی سمندر والے ستون کے ہیڈ کوارٹر میں پہنچا جائے جہاں سے یہ شخص یہاں بھیجا گیا تھا۔ ویسے تو اشماریہ نے انھیں بتایا ہوتا ہے کہ ہیڈ کوارٹر تباہ کر دی جائے گا مگر وہاں پروفیسر داؤد اپنی ایک ایجاد کے ذریعے تمام بموں کو بیکار کرنے کا انتطام کر آئے ہوتے ہیں تو ابھی وہ جگہ تباہ نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں۔

   ★★★★★★

ہولناک منصوبہ

یہاں پہنچ کر وہ بالکل ویسا ہی تجربہ ایک پتھر کو آسمان میں پھینک کر کرتے ہیں جیسا بت اور پھر نقلی شخص کا دیکھ چکے تھے ۔ پھر دوسرا تجربہ ایک روبوٹ کو آسمان میں پھینک کر کرتے ہیں۔ اب ان کو سمجھ آ جاتا ہے کہ سازش کیسے عمل میں آئی۔
ادھر ریڈیو پر بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ شخص اب تک کروڑوں کا مجمع اکٹھا کر چکا ہے اور اب مدینہ منورہ جانے والا ہے جہاں وہ عمرہ ادا کرے گا۔ اور حضرت محمد ﷺ اور اصحابہ کرام کے روضوں کی ضیارت کرے گا۔
یہ سن کر ان کی سٹی گم ہو جاتی ہے یعنی اب وہ شخص مکہ اور مدینہ جا کر اگر کوئی بھی دعوٰی کر دے تو لوگ اسےسچ ہی مانیں گے۔ اب یہ اپنی تیاری کرتے ہیں اور ایک دن اچانک لوگ مسجد کے مینار پر ایک اور شخص کو اترتا دیکھتے ہیں اور یہ انسپکٹر جمشید ہوتے ہیں۔
لوگ حیرت سے اوپر دیکھتے ہیں تو وہ شخص کہتا ہے سب لوگ نظریں نیچے کر لیں اور نماز پڑھیں کیونکہ تکبیر کہی جا چکی ہے جیسے پہلے ہوا تھا سب کچھ ویسے ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ اب انسپکٹر جمشید سیڑھی منگواتے ہیں اور ان کے ساتھی وہ سب کرتے ہیں۔ یہاں انسپکٹر جمشید کہتے ہیں کہ اس نقلی حضرت عیسٰی کو بھاگنے نہ دیا جائے۔ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اب ان کا یہ چکر شروع ہو جاتا ہے کہ اصلی کون ہے نقلی کون ؟

★★★★★★

پنجرے کے قیدی

یہ مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کو نقلی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نہیں کر پاتے، اب ان کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے اور انسپکٹر جمشید بالآخر اس کو نیچے گرا کر اس پڑ چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اس لڑائی میں دونوں ایک دوسرے کو پہچان جاتے ہیں وہ کہتا کہ تم انسپکٹر جمشید ہو اور وہ کہتے ہیں کہ تم سی مون ہو۔ یعنی وہ نقلی مسیح موعود دراصل سی مون ہوتا ہے جو ان کو جزیرے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور پھر پورے ناول میں کہیں نظر نہیں آیا تھا۔
یہ دونوں مختلف طریقوں کی لڑائی میں بھی ایک دوسرے کو نقلی ثابت نہیں کر پاتے۔ رات ہوجاتی ہے اور رات میں ان پر بیگالی شب خون مارتے ہیں مگر یہ سب ہوشیار ہوتے ہیں اس لئے نقصان الٹا انکا ہی ہوتا ہے۔ دوسرے دن پھر انکی خونریز لڑائیاں ہوتی ہیں اور انسپکٹرجمشید وغیرہ سب زخمی ہو کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ سی مون ان سب پر بھاری پڑتا ہے۔ جب ہوش آتا ہے تو وہ سب پنجروں میں قید ہوتے ہیں اور قافلہ کہاں جا رہا ہوتا ہے انھی نہیں پتہ۔ قافلے میں تین بڑے بڑھے صندوق بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ سب کچھ دن کے بعد مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سی مون اور اسکے ساتھی عمرہ کرتے ہیں پھر یہ قافلہ مدینہ منورہ کی طرف چل پڑتا ہے۔ یہ سب ابھی تک پنجروں میں ہی قید ہوتےہیں۔
ایسے میں شوکی کسی طرح سی مون کی جیب سے ایک پنجرے کی چابی اڑا لیتا ہے۔ وہ چابی انسپکٹر جمشید کو دی دیتا ہے۔ ایک رات یہ چپکے سے پنجروں سے باہر آ کر پہرے داروں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ اب یہ سب عربی لباس حاصل کرکے مسجدِ نبوی میں آجاتے ہیں۔ وہاں سی مون ان تین صندوقوں کے ساتھ آجاتا ہے ، اب وہ کہتا ہے کہ روضہ رسول کا دروازہ کھلوایاجائے اور صندوق اندر رکھوائے جائیں۔

   ★★★★★★

حق کی جیت

ابھی وہ اندر جانے ہی والا ہوتا ہے کہ مجمع سے ایک آواز آتی ہے کہ اس شخص نے ایک حدیث کے مطابق السلام وعلیکم یا رسول اللہ نہیں کہا۔ یہ حدیث ہے کہ جب یہ سلام کریں گے تو حضور ﷺ اندر سے سلام کا جواب دیں گے۔ اس جواب کو حاضرین بھی سنیں گے۔ تو اگر یہ اصلی مسیح موعود ہیں تو سلام کریں۔ وہاں فرمانروا ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہاں بالکل یہ حدیث ہے تو آپ سلام کریں اور جواب وصول کریں۔ اب سی مون بھی انسپکٹر جمشید کو پہچان جاتا ہے اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگ جاتی ہیں ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ سلام کرے۔ بالآخر وہ سلام کرتا ہے مگر جواب نہیں ملتا۔ انسپکٹر جمشید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی ایک ثبوت ہے جو اس کو نقلی ثابت کرے گا۔ فرمانروا پوچھتے ہیں کیا ثبوت ہے تو انسپکٹر جمشید بولتے ہیں کہ ان صندوقوں میں پھول نہیں ہیں۔ جیسے کی اس نے کہا ہے۔ بلکہ ان صندوقوں میں وہ سامان ہے جس کی مدد سے نفوس قدسیہ کےمبارک حصوں کو نکال لے جانے کا پروگرام تھا نعوذباللہ۔ تاکہ دنیا بھر میں یہ اعلان کیا جاسکے کہ مسلمانوں کا مذہب غلط ہے۔ مدینہ منورہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یعنی ساری دنیا کو عیسائی اور یہودی بنانے کی سازش ہے۔
اب سی مون کہتا ہے کہ ہاں میں سی مون ہوں اور میں جا رہا ہوں پھر آؤں گا بدلہ لینے اور وہ ایک دھوئیں کا بم مار کر نکل جاتا ہے۔ اب جب صندوق کھولے جاتے ہیں تو ان کے بیان کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

   ★★★★★★

آخری ٹکراؤ

اس طرح یہ اس سازش کا خاتمہ کر دیتے ہیں اور ایک جہاز کے ذریعے اپنے ملک روانہ ہو جاتے ہیں مگر جہاز میں خرابی بتائی جاتی ہے اور جہاز کو ایک ریگستان میں اتاردیاجاتا ہے۔ یہاں ان کی ملاقات ایک بار پھر سی مون سے ہو جاتی ہے، وہ ان سے لڑنا چاہتا تھا مگر وہاں 100 بیگالی فوجی آجاتے ہیں۔ سی مون کہتا ہے کہ تمہیں نہیں آنا چاہئے تھا تو وہ سازش کی ناکامی پر سی مون کو بھی گرفتار کرنے کا ارادہ بتاتے ہیں۔ وہ ان فوجیوں سے بھڑ جاتا ہے اور ان ختم کر دیتا ہے کچھ فوجی بھاگ جاتے ہیں۔ اب سی مون ان لوگوں پر حملہ کر دیتا ہے اور ان سے جھڑپ کے نتیجے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آتی ہے۔
ابھی یہ اسے گرفتار کرنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ایک ریت کا طوفان آتا ہے اور سی مون کے ساتھ فرزانہ اور فرحت کو بھی اڑا لے جاتا ہے۔ تھوڑی دور جا کے دیکھتےہیں تو سی مون اور اشماریہ سے ٹکراؤ ہوجاتا ہے۔ وہ ایک مشین کے ذریعے ریت میں سب کو دھنسا کرنکل جاتے ہیں۔ اچانک پیچھے سے فرزانہ اور فرحت ان کو دھکا دے کر ان کی مشین ہتھیا لیتی ہیں اور ان پر ریت چھوڑ دیتی ہیں۔
بعد میں پتہ چلتا ہے کہ دونوں غائب ہیں۔ اب یہ سب واپس گرتے پڑتے جہاز تک جاتے ہیں اور پائلٹوں کو قابو کر کے اپنے ملک کنٹرول ٹاور اطلاع بھیجتے ہیں پھر ایک جہاز آکر انہیں لے جاتا ہے۔ اور یہ اپنے ملک کے ایئر پورٹ پر اتر جاتے ہیں۔

ختم شد
   ★★★★★★

 

آج سے 33 سال پہلے لکھا گیا ناول ہے جس کا یہ آخری حصہ اتنا زبردست ہے کہ اس سے پہلے اس موضوع پر نہ کبھی کسی نے سوچا ہوگا نہ لکھا ہوگا اور جس خوبصورت انداز میں اس ناول کا اختتام ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

★★★★★★★★★ 9/10 :کتاب دوست ریویو ریٹنگ




آپ کے خیال میں ناول کی ریٹنگ کیا ہے؟
اپنا ووٹ دیجئے اور رزلٹ دیکھئے

[yop_poll id=”1″]

آپ کو یہ جائزہ یا خلاصہ کیسا لگا مجھے ضرور بتائیے گا۔ اگر حوصلہ افزائی ہوئی تو باقی کے تمام خاص نمبرز کا بھی خلاصہ پیش کروں گا۔ مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ایسے ایسے دور اندیش لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے برسوں پرانے اقوال و پیشن گوئیاں اب اس دور میں سچ ثابت ہو رہی ہیں اور ایسا ہی ایک پروجیکٹ بلو بیم کے نام سے ہے جس کے ذریعے آسمان پر انسانی ہیولوں کو زمین پر اترتے دکھایا جا چکا ہے اس فتنے کو سمجھنے کے لئے باطل قیامت ایک بہترین تھیوری ہے۔

 

Download full novel : Batil Qayamat

 

نوٹ: یہ خلاصہ پیش کرنے کامقصد اشتیاق احمد کا پیغام ان لوگوں تک پہنچانا ہے جو اپنی تعلیمی، معاشی، گھریلو، یا کسی اور مصروفیت کی وجہ سے ضخیم و طویل ناول پڑھنے کا وقت نہیں نکال سکتے یا ان کو یہ ناول کسی بھی وجہ سے میسر نہیں آئے یا ایسے لوگ جو ملک سے باہر چلے گئے یا ان کی اولادیں جو پاکستان سے باہر پروان چڑھی ہیں انھیں پاکستان کے ان نامور مصنفوں کی کتابوں کے بارے میں تعارف پیش کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ جن فتنوں اور سازشوں کا ذکر ناولوں میں کیا گیا ہے ان سے آگاہی حاصل ہو۔ اب اس کوشش میں کتنی کامیابی ہوتی ہے یہ اللہ کو معلوم۔

شکریہ

Shahzad Bashir

Publisher: KitabDost.com


9 thoughts on “Novel Review & Video Summary: Batil Qayamat

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *