we have to go home - story

We have to go home: A True Story of a brave girl

Shahzad Bashir Very Interesting Story of My Life
ہمیں گھر جانا ہے! ۔ ایک سچی داستان

We have to go home – A true story

ایک باہمت اور باحوصلہ لڑکی کی داستان جس نے اپنی بہن اور کزن کے ساتھ ایک کیمپ سے راہ فرار اختیار کیا.
مسلسل نو ہفتے یعنی 63 دن بے سرو سامانی کے عالم میں اور پیدل 2400 کلومیٹر کا سفر کیا۔

اور یہی نہیں اسے دوبارہ پکڑ کر اسی کیمپ پہنچایا گیا اس مرتبہ اس کی بیٹی اس کے ساتھ تھی اور پھر سے وہ فرار ہوئی اور 2400 کلومیٹر پیدل چل کر دوبارہ اپنے گھر پہنچی۔
یعنی ٹوٹل 4800 کلومیٹر پیدل سفر وہ بھی بنا کسی زادِ راہ کے۔

پڑھئے ایک گمنام کہانی. چند سال قبل اس پر ایک فلم بھی بنائی گئی ہے۔
کتاب دوست آپ کے لئے پیش کر رہے ہیں۔
تحریر : شہزاد بشیر  ویب پبلشر – کتاب دوست ڈاٹ کوم

 

یہ کہانی انسانی عزم و حوصلہ کی وہ ناقابلِ یقین سچی داستان ہے جسے پڑھ کر آپ کے عقل حیران رہ جائیگی۔ آپ دنیا میں انسانی ہمت اور خود پر یقین کے محیرالعقول کارنامے پڑھتے رہتے ہیں مگر پھر بھی یہ حقیقی داستان آپ کو ہمت و لولہ کی ایک اور ہی دنیا میں لے جائے گی۔

کتا ب دوست کے قارئین کے لئے ایک بہترین تحریر ۔

We have to go home - poster copy!ہمیں گھر جانا ہے 

ایک سچی داستان

We have to go home !

A true story

by: Shahzad Bashir

 

 

یہ داستان ہے مغربی آسٹریلیا کے گاؤں جیگا لونگ کی اور وقت ہے 1931 کا۔ جیگالونگ قبائلی لوگوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔

جہاں دو بہنیں “مولیعمر چودہ سال اور اس سے چھوٹی “ڈیزیعمر آٹھ سال بھی اپنی ماں اور نانی کے ساتھ رہتی تھیں۔

ان کا باپ ایک سفید فام آسٹریلوی باشندہ تھا جو اب ان کے ساتھ نہیں رہتا تھا کیونکہ وہ “خاردار باڑھ” فینس بنانے کا کام کرتاتھا۔

یہ باڑھ مشرقی آسٹریلیا اور مغربی آسٹریلیا کے درمیان لگائی جا رہی تھی

جو کہ مشرقی آسٹریلیا کے خرگوشوں اور دوسرے جانوروں کو روکنے کیلئے لگائی جارہی تھی جو مغربی آسٹریلیا کی فصلوں کو تباہ و برباد کر دیا کرتے تھے۔

یہ 4 سے 5 فٹ اونچی اور اتنی ہے زمین میں دھنسی باڑھ سینکڑوں ہزاروں میل لمبی باڑھ تھی جو مشرقی اور مغربی آسٹریلیا کے درمیان لگائی جا رہی تھی ۔ 

ہاف کاسٹ

اس دور میں آسٹریلیا نے ان قبائلی لوگوں کیلئے ایک قانون بنایا جس کے تحت ان تمام قبائلی لوگوں کی زندگیوں پر آسٹریلوی یعنی گورے لوگوں کا  حق تھا۔

یہاں ایک گارڈین تعینات کیا گیا تھا جس کا نام “ایوانیول” تھا ۔ جسے ان قبائلیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام تر اختیارات دیئے گئے تھے۔

اس قانون کے تحت ایوانیول کو یہ بھی اختیار تھا کہ وہ ان قبائل میں سے جو بھی ہاف کاسٹ چائلڈ ہے اسے اپنی تحویل میں لے سکتا تھا ۔  

“ہاف کاسٹ چائلڈ” ایسے بچوں کو کہا جاتا ہے جو دوہری نسل سے ہوں یعنی ماں باپ مختلف نسل کے ہوں 

تو یہاں ان کا باپ گورا اور ماں قبائلی تھی ۔

ایسے بچوں کو آسٹریلیا میں ایک ہاسٹل میں رکھ کر گھریلو خدمات کے طریقے سکھا کر گورے آسٹریلیائی لوگوں کے گھروں میں غلامی کے لئے بھیج دیا جاتا تھا

جو ہمیشہ وہیں رہتے اور کبھی اپنے ماں باپ یا رشتہ داروں سے نہیں مل سکتے۔

اب کیونکہ مولی اور ڈیزی بھی ہاف کاسٹ چلڈرن تھیں تو ایوانیول ان کو بھی اپنی تحویل میں لینے کے لئے دو پولیس والوں کو ان جیگا لونگ گاؤں بھیج دیا۔

ساتھ ہی ساتھ ان کی ایک کزن جس کا نام “گریسی” ہے جس کی عمر تقر یبَََا 12 سال ہے اسے بھی اٹھا لانے کا آرڈر جاری کر کر دیا۔

اب یہ پولیس والے گاؤں پہنچ کر ان تینوں بچیوں کو زبردستی ان کی ماں اور نانی سے چھین کر گاڑی میں لے کر چلے گئے

اور بعد میں ان کو ایک ریل گاڑی میں موجود جانوروں کے لئے بنائے ایک پنجرے میں بند کر کے بذریعہ ٹرین چوبیس سو کلومیٹر دور ایک شہر “پرتھ’ کے ہاسٹل میں پہنچا دیا گیا۔

جہاں مشنریز ان جیسے بچوں کو کھیتی باڑی اور دیگر گھریلو کام سکھا تی تھیں

تاکہ وہ گورے لوگوں کی خدمت کر سکیں اور آگے چل کر گورے لوگوں سے شادی کریں۔

اس وقت کے لوگوں کا یہ یقین تھا کہ تین نسلوں کے بعد ہاف کاسٹ لوگوں میں مکمل بدلاؤ آجاتا ہے

اور انکے بچے گوروں کی نسل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

یہاں ایوانیول مولی ڈیزی اور گریسی کی جلد کی رنگت چیک کرتا ہے کہ ان میں گورے پن کا کچھ اثر ہے یا نہیں۔

اگر کسی بچے میں گورے پن کا اثر پایا جاتا تو پھر اسے یہاں سے ہٹا کر نارمل بچوں کے اسکول میں داخل کر دیا جاتا تھا۔

تاکہ مستقبل میں وہ آسٹریلین لوگوں میں شامل ہو جائیں۔

اب یہاں چونکہ ان بچوں کو اپنے ماں باپ سے چھین کر لایا گیا تھا تو ظاہر ہے ان کے دلوں میں سفید فام لوگوں کے لئے نفرت اور غصہ تھا

 یہاں سے کئی بچے بھاگ کر واپس جانے کی بھی کوشش کر تے تھے۔

ان بھاگے ہوئے بچوں کا کھوج لگانے اور واپس کیمپ میں پہنچانے کیلئے ایوانیول کا ایک خاص کارندہ تعینات تھا جسے “ٹریکر” کہا جاتا تھا

اس کا کام ہی یہ تھا کہ یہ فرار ہونے والے بچوں کا کھوج لگا کر انھیں واپس کیمپ تک پہنچائے۔

ٹریکر ایک بہت ہی شاطر اور تیز طرار انسان تھا۔

کیمپ میں پہنچنے کی کچھ ہی دن بعد مولی ڈیزی اور گریسی دیکھتی ہیں کہ ٹریکر ایک ایسی لڑکی کو پکڑ کر لارہا ہوتا ہے جو یہاں سے بھاگ نکلی تھی۔

مگر ٹریکر نے اس کے قدموں کے نشانات اور اپنی چالبازی سے کام لے کر بہت جلد ہی اس کو پکڑ لیا تھا۔

 اس لڑکی کو ایک چھوٹے سے کیبن میں بند کر کے خوب تشدد کیا گیا یہ دیکھ کر یہ بچیاں بہت ڈر گئیں

کیمپ سے فرار

مگر اس ڈر پر غصہ غالب آ گیا اور مولی جو ان میں سب سے بڑی ہے وہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنی بہن اور کزن کو لے کر یہاں سے فرار ہو جائے گی۔

وہ یہاں نہیں رہے گی اور اپنی ماں اور نانی کے پاس ہی رہے گی اپنے گاؤں اپنے گھر میں۔

ایسے ہی ایک روز ایک صبح جب سب بچے عبادت کے لئے چرچ گئے ہوئے مولی اپنی بہن ڈیزی اور گریسی کو لے کر چھپتی چھپاتی ایک طرف کو نکل گئی۔

اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان کا گاؤں یہاں سے کتنی دور ہے اور اس تک کیسے پہنچا جائے گا۔

مگر پھر بھی وہ ہمت کر کے وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔

اب سارا دن تو کسی کہ اندازہ نہیں ہوا کہ یہ تینوں بچیاں کہیں نظر نہیں آئیں مگر جب رات میں سونے سے پہلے ان کی حاضری ہوتی تو معلوم ہوا کہ یہ بچیاں تو صبح سے ہی غائب ہیں۔

یہ اطلاع فوراََ ٹریکر کو دی گئی اور اس کے ذمے لگایا گیا کہ ان تینوں کو کسی بھی قیمت پر یہاں واپس لائے۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ٹریکر اپنے کام کا ماہر تھا وہ مولی اور اسکی بہنوں کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگالیتا ہے کہ وہ کس طرف گئی ہیں۔

اور اس نے فوراِِ ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔
ادھیر مولی اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ لگا تار بھاگ رہی تھی کیونکہ اسے ہر قیمت پر اپنی ماں کے پاس پہنچنا تھا۔

وہ نہیں جانتی تھیں کتنی دور اور کتنی دیر تک بھاگنا ہے مگر وہ ہمت و حوصلہ بڑھاتے ہوئے دونوں بچیوں کے ساتھ بھاگتی رہی

اور کیمپ سے بہت دور پہنچ  گئی۔

یہ تینوں بچیاں بھوک سے نڈھال گرتی پڑتی چلی جا رہی تھیں۔

جنگل اور جھاڑیوں کے درمیان اگر کوئی کھانے کی چیز مل جاتی تو وہ کھا لیتیں اور کسی تالاب سے یا نہر سے پانی پی لیتیں اور پھر سے چلنا شروع کر دیتیں۔

مولی اپنی بہن اور کزن گریسی کا مسلسل حوصلہ بڑھاتی رہی کہ بہت جلد ہم اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔

اب ان کو بھاگتے ہوئے دو روز ہو چکے تھے اور یہ تھکن اور بھوک پیاس سے نڈھال تھیں۔

مگر مولی جانتی تھی کہ ٹریکر ان کے تعاقب میں ہے اور وہ ان تک پہنچ سکتا ہے

اسی لئے وہ رکنا نہیں چاہتی تھی اور گرتے پڑتے اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔

ایک جگہ پہنچ کر ان کے سامنے ندی آگئی تو مولی نے اپنی کزن کے کپڑوں کا ایک ٹکڑا جھاڑیوں میں اٹکا دیا

تاکہ ٹریکر کو راستے سے بھٹکایا جا سکے۔

اور پھر یہ تینوں ندی میں چلتے ہوئے آگے نکل گئیں ۔

تعاقب

ادھر ان کو کھوجتا ہوا ٹریکر بھی وہاں پہنچ گیا اور وہ اس کپڑے کے ٹکڑے کو جھاڑیوں میں دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔

مگر اس کا دماغ بہت ہی شاطرتھا وہ سمجھ گیا کہ یہ اس کو دھوکا دینے کیلئے مولی نے ایک چال چلی ہے۔

وہ بڑا حیران بھی ہوا اور کہا کہ یہ شکار کرنے میں مزا آئے گا۔

چلو دیکھتے ہیں اسے کس طرح پکڑنا ہے۔

اور وہ بھی ندی میں ان کے پیچھے چل پڑا۔

ٹریکر گھوڑے پر تھا اور یہ تینوں بھوک پیاسی بچیاں پیدل تھیں جن کے پاؤں زخمی تھے ۔

پیروں میں چھالے پڑ چکے تھے اور اب ان سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔

ٹریکر ان کے تیزی سے نزدیک آرہا تھا ۔

اچانک مولی اور اس کی بہنوں کو گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز دور سے آتی محسوس ہوئی۔

چھوٹی بچیاں ڈر گئیں۔

مولی سمجھ گئی کہ ٹریکر یہیں کہیں آس پاس ہے۔

وہ تیزی سے ادھر ادھر نظر دوڑا رہی تھی۔

اچانک اس کی نظر جھاڑیوں کے ایک جھنڈپر پڑی اور وہ فوراََ اپنی بہنوں کے ساتھ اس طرف دوڑپڑی۔

یہ جھنڈ ندی کے ساتھ ہی تھا اس لئے وہ پانی میں سے چلتے ہوئے اس جھنڈ میں جا کر لیٹ گئیں ۔

ٹریکر ان کے پیروں کے نشانات اور ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں اور پتوں کو غور سے دیکھتا ہوا ان کی ہی جانب آ رہا تھا

مگر مولی اپنے آپ کو چھپالیتی ہے اور ٹریکر کو پانی میں ان کے قدموں کے نشانات نہ ملنے کی وجہ سے وہ وہیں چکراتا رہا 

اور پھر ایک طرف چل پڑا۔

لمبا سفر

کچھ دیر بعد مولی ڈیزی اور گریسی نے بھی دوبارہ اپنا سفر شروع کر دیا

تھوڑی دیر چلنے کے بعد ان کو اچانک دو آدمی نظر آئے ہیں پہلے تو یہ ڈر گئیں مگر بعد میں مولی ان کے حلیوں سے اندازہ لگا یا  کہ یہ قبائلی ہیں اور سفید فارم نہیں ہیں۔

ان قبائلیوں کے پاس ایک شکار کیا ہوا جانورتھا۔

وہ ان تینوں کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ کیمپ سے بھاگ کر آئی ہیں۔

انہیں نے ندی کے کنارے ٹریکر کو بھی دیکھا تھا۔

ان دونوں آدمیوں نے ان بچیوں کو کھانا کھلایا۔ اور ان کی پیاس بجھائی

پھر ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تمہیں کہاں جانا ہے؟ مولی اس کو بتایا کہ ہمیں جیگالونگ جانا ہے۔

وہ حیران ہو کر بولا  کہ وہ یہاں سے کئی سو کلومیٹر دور ہے۔ تم وہاں تک نہیں پہنچ پاؤگی پیدل چل کر۔

اور پھر ٹریکر تمہارے پیچھے ہے وہ آج تک کبھی ناکام نہیں ہوا۔ وہ تمہیں ڈھونڈ لے گا اور پکڑ کر واپس لے جائےگا۔

مگر مولی اور اس کی بہنیں بہت ہمت اور عزم سے بولیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ہمیں گھر جانا ہے۔

اب تک ایوانیول کو بھی ان بچیوں کے فرار کی اطلاع مل چکی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ گیا تھا اب تک ٹریکر ان کو پکڑ کر لانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔

یہ خبر کسی طرح مولی کی ماں کو بھی پہنچ گئی اور وہ فکر مند ہو گئی

لیکن ساتھ ہی خوش بھی ہوئی اور دعا کرنے لگی کہ اس کی بچیاں صحیح سلامت گھر واپس آجائیں۔

ادھر مولی ڈیزی اور گریس چلتے چلتے ایک گھر کے پاس پہنچ گئیں۔

دروازے کے قریب ہی انہیں ایک مرغی کا دڑبہ نظر آیا اس میں مرغیاں بھی تھیں۔

اب تک ان کا چل چل کر بھوک پیاس سے برا حال ہو چکا تھا۔

مولی چپکے سے دڑبے تک پہنچ کر اس کے انڈے چرانے کی کوشش کر کرنے لگی تاکہ اپنی اور دونوں بچیوں کی بھوک مٹائی جائے۔

لیکن مرغیاں شور مچا دیتی ہیں اور ایک سفید فام عورت اندر سے نکل کر وہاں پہنچ گئی۔

وہ ان بچیوں کو دیکھ کر سب کچھ سمجھ گئی۔

وہ ایک ہمدرد عورت تھی اسلئے اس نے ان کو کھانا کھلایا

ساتھ ہی انہیں کچھ کپڑے بھی دیئے کیونکہ ان کی تو حالت بہت ہی خستہ ہو چکی تھی۔

اس وقت تک شام ہو رہی تھی وہ ان سے کہتی ہے کہ تم لوگ یہاں سو جاؤ صبح چلے جانا۔

یہ تینوں بچیاں تھکن سے بے حال ہو رہیں تھیں اسلئے مولی اس کی بات مان گئی۔۔

خاردار باڑھ

دوسری صبح جب یہ تینوں چلنے لگیں  تو عورت ان سے بولی کہ محتاط رہنا یہاں کچھ شریر بچے خرگوشوں کا شکار کرنے فینس یعنی خاردار باڑھ کی طرف گئے ہیں کہیں تمہیں نقصان نا پہنچا دیں۔

گریسی نے فوراََِ مولی کی طرف دیکھا اور وہ سمجھ گئی ۔اس نے عورت سے پوچھا کہ کیا یہ وہی خاردار باڑھ ہے جو مشرقی اور مغربی آسٹریلیا کے بیچ لگائی گئی ہے۔

وہ بولی کہ ہاں یہ وہی ہے اور مشرق کی سمت ہے ۔

اب یہ تینوں بچیاں دوبارہ پرجوش ہو گئیں۔

مولی اپنی بہن اور کزن گریسی کو حوصلہ دیتی کہ دیکھو اب ہم اگر اس خاردار دیوار کے ساتھ چلتے رہیں گے تو جیگالونگ پہنچ سکتے ہیں۔ ہمت کرو ہمیں جانا ہی ہوگا۔

اور یوں وہ تینوں چلتے ہوئے اس باڑھ تک پہنچ گئیں۔

اب یہ بچیاں بہت خوش ہوئیں اور اسکے سہارے آگے بڑھنےلگیں۔

ادھر ایوانیول کو خبر لگ گئی کہ چار دن پہلے یہ بچیاں باڑھ کے پاس ایک گاؤں میں دیکھی گئی ہیں ۔

وہ نقشے کو دیکھ کر اندازہ لگاتا ہے کہ کچھ روز بعد وہ تینوں باڑھ کے ایک جنکشن کے پاس پہنچیں گی۔

ساتھ ہی اس نے وہاں موجود اپنے ایک آدمی کو یہ پیغام بھیجا کہ جیسے ہی بچیاں وہاں پہنچیں انہیں پکڑ کر واپس لایا جائے۔

ان بچیوں کو چلتے چلتے کئی روز ہو چکے تھے اور اب ان میں آگے بڑھنے کی ہمت بھی نہیں تھی لیکن جیسے تیسے یہ لوگ ابھی بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھیں۔

ایسے میں ڈیزی جو صرف آٹھ سال کی تھی تھک کر گر پڑی۔

اس کے پیروں میں چھالے پڑ چکے تھے اور وہ اب مزید نہیں چل سکتی تھی۔

وہ رونے لگی۔ اس کو ماں اور گھر کی یاد بھی آرہی تھی اور یہ تینوں ہی پھر سے بھوک پیاس سے نڈھال تھیں۔

مگر مولی ابھی بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی بہن اور کزن کو جیگالونگ اپنے گھر تک ہر صورت لے کر جائے گی۔

شکاری

اب تک وہ کئی سو کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر چکی تھیں۔

مگر ابھی بھی انہیں یہ نہیں پتہ کہ اور کتنا سفر ابھی مزید کرنا ہے۔

بس یہ تو چلی جا رہی ہیں اس امید پر کہ جلد ہی وہ اپنے گھر پہنچ جائیں گی۔

اب مولی ہمت کر کے ڈیزی کو اپنے کندھے پر اٹھا لیتی ہے اور پھر آگے بڑھنے لگتی ہے۔

اس چودہ سال کی لڑکی کی عزم اور ہمت بے انتہا مضبوط تھی۔

اسے اپنے اوپر پورا بھروسہ تھا۔ چنانچہ وہ سست روی سے اپنی بہن کو کندھے پر اٹھا کر چلتی رہی۔

اور پھر کچھ اور آگے چل کر انہیں ایک چھوٹا سا شکاری ٹینٹ نظر آیا۔

یہاں ایک سفید فام گورا آدمی انہیں دیکھ لیتا ہے مگر وہ بھی ایک بہت اچھا انسان تھا اور اس نے انہیں کھانا کھلایا

اور ان سے پوچھا ہے کہ تم کس طرف جا رہی ہو۔

مولی نے اسے اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا تو اس نے ان کو کہا  کہ وہ تو ابھی بھی کئی سو کلومیٹر دور ہے۔

اس نے ان کو ایک شارٹ کٹ بتایا جو باڑھ سے ذرا ہٹ کر تھا مگر اس سے پورے ایک سو میل کم فاصلہ ہو جاتا تھا۔

مولی فیصلہ کیا کہ اسی راستے سے جانا ہوگا۔ اور وہ اس پر چل پڑے ۔

کچھ دن اور چلنے کے بعد انھیں ایک گھر نظرآیا  جہاں ان کی ایک ہاف کاسٹ عورت سے ملاقات ہوئی۔

اس نے انہیں پہچان لیا کیونکہ اب تک ان کی خبر اخبار میں چھپ چکی تھی ۔

اس نے ان سے پوچھا کہ یہاں تک کیسے پہنچیں ؟

مولی نے بتایا کہ ہم پیدل آئے ہیں تو وہ حیران و پریشان ہوگئی

اس نے بتایا کہ وہ بھی اسی کیمپ میں تھی مگر کبھی بھاگنے کی ہمت نہ کرسکی۔

وہ بولی  کہ وہ کیمپ تو یہاں سے آٹھ سو کلومیٹر دور ہے۔

اتنا دور تو آج تک کوئی پیدل نہیں چل سکا۔ تم رات یہاں رکو صبح چلے جانا۔

اور یوں وہ وہاں رک گئیں مگر رات کو وہاں ایک وائٹ مین یعنی گورا آ گیا تو یہ تینوں ڈر کر بھاگنے لگیں

مگر وہ عورت ان سے بولی کہ تم ڈرو نہیں یہ کچھ نہیں کرے گا۔

مولی اس کی بات مان لیتی ہے۔

ایوانیول کی چال

مگر تھوڑی دیر بعد ہی اسے ایک گاڑی کی آواز سنائی دینے لگی

اور وہ اپنی بہنوں کے ساتھ پچھلے دروازے سے کچھ دور جھاڑیوں میں بہنوں کو چھپا کر واپس آئی

اور ایک جھاڑی کی مدد سے اپنے پیروں کے نشانات کو مٹاتی ہوئی واپس جا کر خود بھی وہیں چھپ گئی۔

اب انہیں وہاں ٹریکر کچھ اور لوگوں کے ساتھ نظرآیا جو ان کو تلاش کر رہا تھا 

مگر رات کے گھپ اندھیرے میں وہ نشانات ڈھونڈے تو اسے نشانات نہیں ملے وہ ایک بار پھر حیران رہ گیا

اور دل میں مولی کو برا بھلا کہنے لگا۔

وہ تینوں بچیاں رات ہی رات میں بہت دور نکل گئیں۔

وہ ابھی بھی باڑھ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں۔

ایوانیوال بہت پریشان تھا اس نے ایک چال چلی اور ایک جھوٹی خبر پھیلا دی کہ گریسی کی ماں اس کا ایک اور گاؤں میں انتظار کر رہی ہے۔

ادھر ان تینوں کو ایک اور آدمی ملا  جو انہیں کھانا کھلاتا ہے

اور بتاتا ہے کہ گریسی کی ماں اس کا ایک اور گاؤں “ولونا” میں انتظار کر رہی ہے۔

مولی بھانپ گئی کہ یہ جھوٹ ہے مگر گریسی اب بہت تھک چکی تھی

وہ یہ خبر سن کر خوش ہوئی حالانکہ مولی نے اس کو سمجھایا بھی ہے کہ یہ ایک چال ہے مگر وہ نہیں مانی۔

اس آدمی نے گریسی سے کہا کہ تم ٹرین کے ذریعے ویلونا پہنچ سکتی ہو میں تمہیں ٹرین میں بٹھا دوں گا۔

اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی۔

مولی کو بہت افسوس ہوا مگر گریسی کی ہمت جواب دے چکی تھی اس لئے اسے ماں کی جھوٹی خبر سن کر یقین آگیا

اور وہ اس آدمی کے ساتھ چلی گئی۔

جبکہ مولی نے پھر سے ڈیزی کو کندھے پر اٹھایا اور آگے بڑھنے لگی۔

مگر کچھ دور جا کر اسے احساس ہوا کہ اسنے گریسی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی ماں سے ضرور ملوائے گی

اور اسے اس آدمی پر شک تھا  وہ دونوں واپس اس جگہ پہنچیں جہاں گریسی ان کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

اور چلتے چلتے وہ اس ٹرین کی پٹری تک پہنچ گئیں جہاں ایک بنچ پر گریسی بیٹھی ہوئیتھی۔

اب گریسی کو بھی اس آدمی پر شک ہو گیا کہ یہ ضرور کیمپ کا آدمی ہے۔

مولی اس کو اشارہ کر کے چپکے سے بلاتی ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ ان تک پہنچ پاتی،

ایک پولیس والا اسی آدمی کے ساتھ وہاں گیا اور گریسی کو پکڑ کر لے لیا گیا۔ 

چیل

یہ دونوں چھپ گئیں اور پھر بعد میں واپس اسی راستے پر چل پڑیں جہاں سے انہیں باڑھ کے ساتھ چلنا ہے۔

ادھر جب اکیس دن گزر گئے اور ایوانیول کے اندازے کے مطابق مولی اس جنکشن تک نہیں پہنچی جہاں ٹریکر اور اس کا ایک اور ساتھی تعینات تھے، اس نے ان کو وہاں سے واپس بلوا لیا۔

ایوانیول نے اب جیگالونگ میں موجود اپنے ایک آدمی کو خط لکھا کہ اس مہینے کے اختتام تک مولی اور ڈیزی جیگالونگ پہنچ جائیں گی اور جیسے ہی وہ وہاں پہنچیں انہیں پکڑ کر واپس کیمپ لانا تمہاری ذمہ داری ہے۔

ادھر مولی اور ڈیزی اب بری طر ح تھک چکی تھیں انہیں کئی دن پیدل چلتے ہوئے ہو چکے تھے اور صرف اپنی ہمت کے بل پر وہ اتنا چل سکی تھیں۔

لیکن آخر کب تک؟ بالآخر مولی جس نے اپنی بہن کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا۔

بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر باڑھ کے پاس گر کر بے ہوش ہو گئی

ڈیزی پہلے ہی بے ہوش تھی۔

کئی گھنٹوں کے بعد اسے ایک چیل کی آواز سنائی دی

وہ ہوش میں آکر آسمان کی طرف دیکھتی رہی تو اسے ایک چیل فضاؤں میں اڑتی نظر آئی

اور اس کو یاد آیا جب اس کی ماں نے اسے کہانی سنائی تھی کہ یہ چیل دراصل آسمان سے تمہاری مدد کرتی ہے

اور وہ کوئی روح ہوتی ہے۔

یہ سوچ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی

اسے لگا کہ اب اس کا گاؤں زیادہ دور نہیں بس اسے اور ہمت کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے۔

اور وہ ایک بار پھر سے ہمت کر کے اٹھی

مگر ڈیزی میں اب ایک انچ بھی آگے بڑھنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔

مولی بے انتہا ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیزی کو گود میں اٹھا لیا

اور پھر سے چلنا شروع کر دیا۔

چوبیس سو کلومیٹر

ادھر جیگالونگ گاؤں میں موجود ایوانیول کا وہ آدمی بھی ان کا انتظار کر رہا تھا

مگر اب مولی کی ماں اور نانی وغیرہ کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ مولی اور ڈیزی کسی کے ہاتھ نہیں آئیں

اور وہ کبھی بھی یہاں پہنچ سکتی ہیں اسی لئے وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اب وہ بھی یہاں نہیں رہ سکتیں

کیونکہ ایوانیول کے آدمی پھر سے انہیں پکڑکر لے جائیں گے۔

چنانچہ ایک لکڑی کو چھیل کر ایک بھالا نما ہتھیار بنا کر اس پولیس مین کے پاس پہنچ گئیں

اور اسے کہا کہ اگر تم نے مولی اور ڈیزی کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو مارے جاؤگے۔

حالانکہ اس پولیس والے کے پاس گن تھی مگر وہ مولی کی ماں کی ہمت اور اس کا غصہ دیکھ کر ڈر جاتا ہے

اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔

رات ہوتے ہوتے ماں اور نانی اس راستے کی طرف نظر جمائے بیٹھی رہیں جہاں سے ان کو مولی کے آنے کی امید تھی ۔

اور پھر رات کے کسی پہر مولی اور ڈیزی واقعی وہاں پہنچ جاتی گئیں وہ اپنی ماں سے لپٹ گئیں اور بہت روتی رہیں۔

ماں اور نانی ان کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتی گئیں

اور انہیں یقین ہی نہیں رہا تھا کہ ان کی بچیاں ان کے پاس واپس آ گئی ہیں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوا تھا۔

آج تک کو ئی اس کیمپ سے بھاگ نہیں سکا تھا

اور مولی نہ صرف وہاں سے فرار ہو ئی تھی بلکہ اپنی عقلمندی اور ہمت سے “نو ہفتے” یعنی “63 دن” تک مسلسل چل کر2400 چوبیس سو کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے واپس جیگالونگ پہنچ چکی تھی۔

جی ہاں چوبیس سو کلومیٹر کا پیدل سفر۔

بے سرو سامانی، بھوک، پیاس، ڈر خوف، زخم، پیروں کے چھالے، سردی گرمی اور دن رات کا سفر بھی ان بچیوں کے حوصلے نہیں توڑ سکے

اور وہ چوبیس سو کلومیٹر پیدل چل کر واپس اپنے گھر پہنچیں

مگر اب وہ وہاں نہیں رہ سکتی تھیں۔

کیونکہ انہیں پھر سے پکڑ لیا جاتا۔

چنانچہ وہ وہاں سے ایک بیہڑ بیابان علاقے میں چلی گئیں تاکہ کوئی انہیں نہ ڈھونڈ سکے۔

یہ ایک سچی داستان ہے اور اس پر ایک فلم بھی بنی ہے۔

مولی کریگ اور ڈیزی کریگ دونوں بہنیں بہت بوڑھی ہو چکی تھیں انہوں نے بتایا کہ گریسی کو پھر وہ کبھی نہیں دیکھ پائیں۔

مگر جناب یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوئی۔

مولی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس کی شادی ہوگئی تھی اور اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں ۔ 

اور پھر ایک دن ایوانیول کے لوگ پھر اس تک پہنچ گئے

اور اسے اس کی دونوں بیٹیوں کے ساتھ پھر سے پکڑ کر اسی کیمپ میں لے گئے جہاں سے برسوں پہلے وہ فرار ہوئی تھی۔

اور حیرت در حیرت قصہ ختم نہیں ہوا۔

مولی اپنی ایک بیٹی کو لے کر یہاں سے پھر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی

اور پھر سے چوبیس سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے ایک بار دوبارا اپنے علاقے میں اپنے گھر پہنچ جانے میں کامیاب ہو گئی۔

لیکن شاید اس کے نصیب میں ابھی بھی سکھ چین نہیں تھا۔

ایوانیول کے لوگ ایک مرتبہ پھر اس تک پہنچ گئے اور اس مرتبہ اس کی دوسری بیٹی لے کر پھر سے کیمپ چلے گئے۔

اب مولی کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ وہ بہت کمزور اور عمر رسیدہ ہو چکی تھی۔ وہ قسمت کے آگے ہار گئی اور صرف اپنی بیٹیوں کو یاد کرتی رہی۔

اور پھر اس کے بعد کبھی بھی مولی اپنی بیٹیوں کو نہ دیکھ پائی۔

molly craig and daizy craig

یہ ان دو لڑکیوں کی ہمت و حوصلہ کی ایک ایسی سچی داستان ہے جس پر یقین نہیں آتا

مگر انسان کے عزم کے آگے تو پہاڑ بھی سر جھکا دیتے ہیں۔

آپ کو یہ داستان پڑھ کر کیسا لگا مجھے کمنٹ میں ضرور بتائیں۔

 . KitabDost.com –  شہزاد بشیر


اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز -   ڈاؤن لوڈ کیجئے

نمرہ احمد کے ناولز Nimra Ahmed Novels  عمیرہ احمد کے ناولز Umera Ahmed Novels  اشتیاق احمد کے ناولز Ishtiaq Ahmed Novels 
عمران سیریز Imran Series دیوتا سیریز Devta Series انسپکٹر جمشید سیریز Inspector Jamshed Series 
دیگر مصنفین کے ناولز شہزاد بشیر کے ناولز Shahzad Bashir Novels نسیم حجازی کے ناولز Naseem Hijazi Novels


ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟  We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff !   Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household ItemsBuy from Amazon